دو منقسم جمہوریتیں

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

پپو ریسرچ سنٹر کی جانب سے 7 مارچ اور 13 مارچ 2022ء کے درمیان ایک سروے کا اہتمام کیا گیا جس میں یہ انکشاف ہوا کہ امریکی بالغوں کی 61% اکثریت تمام یا اکثر صورتوں میں اسقاط حمل کو قانونی بنانے کے حق میں ہے جبکہ 37% نے اسقاط حمل کو قانونی بنانے کی شدت سے مخالفت کی۔ یہ تقسیم سیاسی بھی ہے۔ ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹس کی طرف جھکاؤ رکھنے والے آزاد اراکین اور عوام نے اسقاط حمل کی تائید و حمایت کی (80%) جبکہ ریپبلیکن اور ریپبلیکن کی جانب جھکاؤ رکھنے والے آزاد اراکین و عوام نے اس کی مخالفت کی (38%) ۔ تائید و مخالفت کرنے والوں کے درمیان خلیج 2016ء سے بڑھنے لگی اور 33 پوائنٹس سے 42 پوائنٹس پر آگئی۔ یہ تمام چیزیں ایک طرف جو اصل مسئلہ ہے، وہ یہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اس معاملے میں کیا انصاف کیا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ اور ملک کا دستور کیا کہتا ہے۔ امریکہ میں سب سے زیادہ عرصہ تک چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے جان مارشل نے صاف طور پر اور پرزور انداز میں کہا تھا کہ یہ ریاست اور محکمہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ (مطلب امریکی سپریم کورٹ کی ذمہ داری) ہے کہ وہ یہ بتائے کہ آخر قانون کیا ہے اور وہ دعویٰ امریکہ میں داغدار ہے۔
حقیقت پسندوں کی تشریح
سال 1973ء میں رو بمقابلہ ویڈ مقدمہ میں امریکی سپریم کورٹ نے یہ رولنگ دی تھی کہ حق اسقاط حمل آزادی کا ایک حصہ ہے اور جس کا تحفظ دستور کی کئی ایک دفعات کے ذریعہ کیا گیا ہے جس میں چودھویں ترمیم کی ’’واجب عمل ‘‘ شق بھی شامل ہے۔ اس کے بیس سال بعد منصوبہ بند انداز میں والدین بننے کے ایک مقدمہ میں جو ساؤتھ ایسٹرن پی اے اور کیسے (Casay) کے درمیان تھا سپریم کورٹ اس نتیجہ پر پہنچی کہ روبمقابلہ ویڈکیس میں امریکی خواتین کی تین نسلیں حق اسقاط عمل کے حامل رہیں۔
24 جون 2022ء کو ڈابس بمقابلہ جیاکنس ویمن ہیلتھ آرگنائزیشن مقدمہ میں ایک اکثریتی (بشمول ٹرمپ کے مقرر کردہ تینوں عہدیداروں کے) فیصلہ 5:3 میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ دستور حق اسقاط حمل عطا نہیں کرتا۔ روبمقابلہ ویڈ مقدمہ میں سپریم کورٹ نے وجوہات کو انتہائی برا اور انتہائی غلط قرار دیا۔ عدالت نے واضح طور پر یہ بھی کہا کہ اسقاط حمل کو باقاعدہ بنانے کی اتھارٹی عوام اور ان کے منتخبہ نمائندوں کو آچکی ہے۔ اگر اس فیصلہ کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ’’عوام‘‘ کو اتھارٹی کو واپسی کچھ کرنے کیلئے اچھی چیز ہے لیکن یہاں ’’عوام‘‘ کا مطلب سارے عوام یا لوگ نہیں ہیں یا تمام بالغ مرد و خواتین یا تمام رائے دہندے نہیں ہیں جو استصواب عامہ (ریفرنڈم) میں حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو امریکی عوام پرجوش انداز میں رو اور Casay کے حق میں ووٹ کا استعمال کرتے یہاں عوام کا مطلب ریاست کی جانب سے تقسیم کردہ عوام ہیں اور منتخبہ عوامی نمائندوں کا مطلب وہ ارکان مقننہ ہیں جنہیں ان مختلف حلقوں اور عوام کی مختلف تعداد نے منتخب کیا ہے۔ جسے اپنے اساسی مفادات کے مطابق جانبدارانہ انداز میں تشکیل دیا گیا تھا یا ان کی حد بندی کی گئی تھی۔ مختصر یہ کہ جھوٹ و دروغ گوئی کی بنیاد پر حلقہ بندی کی گئی تھی۔
متعدد حقوق کو خطرات لاحق
امریکہ کبھی اس طرح منقسم نہیں ہوا کم از کم خانہ جنگی سے اب تک عوام اس طرح منقسم نہیں ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 50 ریاستوں میں سے نصف ریاستیں توقع ہے کہ اسقاط حمل کو عملی طور پر غیرقانونی قرار دیں گی جبکہ مابقی نصف دوسرے سہ ماہی تک اسقاط حمل کی اجازت دیں گی۔ لاکھوں امریکی خواتین کو حق اسقاط حمل غیرمنصوبہ بند حمل یا غیرضروری نومولود کو اس دنیا میں لانے کی اجازت نہیں دے گی۔ غیرضروری یا ان چاہا بچہ کے بارے میں جو تشریح کی گئی، وہ یہ ہے کہ زنابالجبر سے ٹھہرنے والے حمل کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا بچہ ہے جبکہ خواتین کو ایسے بچے پیدا کرنے کی بھی اجازت نہیں رہے گی، جس میں ماں بچے کو اس دنیا میں لانے اور اسے کھلانے پلانے کی متحمل نہ ہو، یا ایسا بچہ جسے کوئی محبت نہیں ملے گی یا اس کی کوئی دیکھ بھال نہیں کرے گا۔ اپنے بچوں کو ان چاہے یا ’’غیرضروری بچے‘‘ کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل پر پابندی عائد کرنے کا جو فیصلہ دیا ہے، اس فیصلہ پر حقوق نسواں کی تنظیمیں اور ادارے چراغ پا ہیں اور اس فیصلے کے نہ صرف امریکہ بلکہ سارے مغرب پر اثرات مرتب ہوں گے۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں اور خواتین کے خیال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ خواتین کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔ ان کے خیال میں سپریم کورٹ کے فیصلہ خواتین کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دے گا اور ایک اندازہ کے مطابق 36 ملین خواتین اس سے متاثر ہوں گی جو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی امریکی خواتین کی نصف تعداد ہے جو 30 ریاستوں میں رہتی ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے سپریم کورٹ کی رولنگ کو خواتین کے چہروں پر ایک زوردار طمانچہ قرار دیا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج امریکی خواتین کی آزادی ان کی ماؤں سے کم ہے۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ امریکہ میں اسقاط حمل پر پابندی کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست قانون کے ذریعہ ایک خاتون کو اپنے پیٹ میں بچے کو اس کی پیدائش تک رکھنے کیلئے مجبور کرتا ہے۔ امریکہ کی سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا، تمام ریاستوں میں قابل اطلاق ہے؟ جن ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی ہے، وہاں کی خواتین دوسری ریاستوں میں جاکر اسقاط حمل کرواسکتی ہیں جبکہ فیڈرل ایگزیکٹیو یا ایک چیارٹی اس خاتون کے دوسری ریاست کو سفر کیلئے مالیہ فراہم کرسکتا ہے۔ شکر ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے خواتین کے حق اسقاط حمل، حق خلوت (پرائیویسی) کا ایک طرح سے تحفظ کیا ہے۔ یہاں کا قانون میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگنینسی (MTP) کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کیلئے کچھ شرائط بھی ہیں لیکن امریکی سپریم کورٹ کے فیصلہ نے وہاں عوام کو دو حصوں میں منقسم کردیا جبکہ ہندوستان میں ذات پات، مذہب، زبان اور جنس کی بنیاد پر عوام میں تقسیم پائی جاتی ہے اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ بی جے پی کی اکثریتی سیاست پر مبنی پالیسیوں نے عوام کو مزید تقسیم کرکے رہی سہی کسر پوری کردی، اس کیلئے ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ بہرحال کیا آپ نے کبھی یہ تصور کیا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب دنیا کی دو بڑی وفاقی جمہوریتیں منقسم قوم بنیں گی۔