دہشت گردوں کے نشانے پر کشمیری نجات دہندے کی تلاش

,

   

پرویز احمد مسلسل 15اکٹوبر سے سیب کے زخمی کاروباری کی اسپتال میں نگرانی پرمامور ہیں۔

سری نگر۔ ایک 28سالہ پرویز احمد کے دن رات سیب کے تاجر 24سالہ سنجیوکمار کی عیادت میں اسپتال میں گذر رہے ہیں جو شوپیان میں مشتبہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد سری نگر کے ایک اسپتال میں زندگی اورموت کی جنگ لڑرہے ہیں۔

ٹیلی گراف کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے پرویز نے کہاکہ ”میں صرف اتنا ہی کہہ سکتاہوں کہ جب سے یہ اسپتال میں شریک ہیں میں یہاں پر ہی ہوں‘ چوبیس گھنٹے میں یہاں پر ہوں‘ ایک لمحہ کے لئے بھی میں اسپتال کے باہر نہیں گیاہوں“۔ٹیلی گراف کی ان سے پہلی ملاقات 24اکٹوبر کے روز ہوئی تھی جو حملے کے نو روز بعد تھی۔

وہ اس وقت بھی وہاں تھے جب نیوز پیپر نے 31اکٹوبر کے روز ایس ایم ایچ ایس اسپتال کا دوبارہ دورہ کیاتھا۔ پرویز نے کہاکہ ”میں ان سے کسی حمایت کا متمنی نہیں ہوں۔

ہم تمام انسان ہیں‘ میں اسکے صحت مند ہونے تک یہاں رہوں گا“۔

سنجیوجوپنجاب کا ساکن ہے‘ ریاست کے خصوصی موقف برخواست کئے جانے کے بعد غیرکشمیریوں کو باہر نکلنے کی پہل میں دہشت گردوں کا شکار ہوا ہے‘ کئی کشمیریوں نے دیکھا کہ وادی میں غیرعلاقائی لوگوں کی موجودگی اقلیت کردی گئی ہے۔

پچھلے تین ہفتوں میں دہشت گردوں نے 11غیر کشمیریوں کو قتل کردیا ہے‘ جس میں پانچ بنگالی بھی شامل ہیں جبکہ کئی ایک مذکورہ دہشت گرد حملوں میں زخمی ہوئے ہیں۔تاہم کئی کشمیری جیسے پرویز اس بحران کے وقت میں غیرکشمیری لوگوں کے لئے اپنی مدد کے ہاتھ بڑھارہے ہیں‘

صدیوں سے بنائے گئے تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے دہلی کے گیم پلان اور اپنے ذاتی خوف کو بالائے طاق رکھ کر یہ کام انجام دے رہے ہیں جو خود تحدیدات کی وجہہ سے پریشان حال زندگی گذار رہے ہیں۔

کئی دنوں سے حالات خراب رہنے کے بعد سنجیوکیفیت میں اب بہتری آرہی ہے۔

اکٹوبر31کے روز اپنے فیملی ممبرس کے ساتھ انہوں نے مزاحیہ انداز میں بات بھی کی ہے۔شوپیان کے ٹرینز گاؤں میں 15اکٹوبر کے روز یہ حملہ پیش آیاتھا‘ جبکہ اس حملے میں پنجاب کے ساکن چرن جیت سنگھ ساتھی سیب کے تاجر کی موت ہوگئی تھی۔

چرن جیت اور سنجیو کامقامی پارٹنر پرویز دونو ں کو پلواماں اسپتال لے کر آیا۔ چرن جیت کی موت راستے میں ہوگئی او رسنجیو کو بعدازاں سری نگر منتقل کیاگیا۔

سنجیو کے سالے ریشو توڈا پنچاجب سے اپنے دیگر تین رشتہ داروں کے ساتھ حملے کے ایک روز بعد اسپتال پہنچے اور کہاکہ اگر مریض آج زندہ ہے تو وہ اس کے لئے پرویز کی کوششو ں کاہم شکریہ ادا کرتے ہیں۔

مریض کی تیماداری میں رشتہ داروں کے ساتھ پرویز بھی چوبیس گھنٹے اسپتال میں موجود ہے۔ پرویز نے کہاکہ ”میں نے انہیں دوائیوں پر ایک روپئے بھی خرچ کرنے نہیں دیا۔

میں نے کہاکہ جب وہ اچھے ہوجائیں گے اسکے بعد ہم بات کریں گے۔ پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتے‘ زندہ رہنا ضروری ہے“۔

انہوں نے کہاکہ فوج کہ”فوج کے ایک کرنل کچھ دن قبل اسپتال ائے تھے اور انہوں نے 25,000کی پیشکش کی مگر میں نے قبول نہیں کیا۔

ریاست نے پچاس ہزار روپئے کی فیملی کو پیشکش کی ہے مگر وہ پیسہ ان کے لوگوں کے ساتھ ہی ہے“۔

شوپیان میں سیب کے بہتر پیدواری کی وجہہ سے غیرعلاقائی تاجروں اور مقامی لوگوں کے درمیان میں رشتہ کافی مضبوط ہوئے ہیں