نئی دہلی۔چوبیس سالہ قاسم پریشان ہے کیونکہ قانون کی بالادستی کے لئے اس کے والد کی جانچ چلی گئی۔ شمال مشرقی دہلی کے نہرو وہار کی ایک بیکری میں پلاسٹک بیا گ دینے سے انکار پر ایک کسٹمر کی جانب سے حملے میں شدید طور پر خلیل کے زخمی ہونے کے ایک کئی دنوں بعد بھی پولیس اب تک ملزمین کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔
مذکورہ بیکری نے حکام کی جانب سے خلاف ورزی کرنے والوں پر انتظامیہ کی جانب سے جرمانہ عائدکرنا شروع کرنے کے بعد پلاسٹک بیگ سے دوری اختیار کرلی تھی۔
سال2017میں پچاس مائیکرون سے زائد پلاسٹک بیاگوں کے استعما ل پر این جی ٹی نے امتناع نافذ کردیاہے۔خلاف ورزی کرنے والے ہر ایک پر انتظامیہ نے پانچ ہزار روپئے کے چالان جاری کیاہے۔
مذکورہ فیکٹری میں خلیل پچیس سالوں سے فیکٹری میں کام کررہا ہے۔ گھر والوں کا دعوی ہے کہ مذکورہ پچاس سالہ شخص نہایت نرم لہجہ میں گفتگو کرنے والا تھا اور ہمیشہ لڑائی اورجھگڑسے دوری اختیا ر کرتے تھے۔
جرم کا گواہ قاسم نے کہاکہ ”مذکورہ شخص فیضان نے پہلے بیکری میں کام کرنے والے کو تمانچہ رسید کیا اور پھرپلاسٹک بیا گ دینے کے لئے زبردستی کرنے لگا۔
اس نے ہنگامہ شروع کیااور ہر کسی کے ساتھ بدسلوکی شروع کردی۔میرے والد نے مداخلت کی اور ان کو بتایاکہ پلاسٹک بیگ پر امتناع ہے۔ پھر وہ شخص نے اینٹ اٹھائی اور ان کے چہرے پر دے ماری“۔
مذکورہ واقعہ 15اکٹوبر کے روز پیش آیا۔ خلیل 20اکٹوبر کے روز زخمو ں سے جانبر نہ ہوسکا۔قاسم کی والدہ جب وہ چھوٹا تک فوت ہوگئی تھیں۔
خلیل کی پہلی شادی سے ہونے والا وہ واحد بچہ تھا۔ والد نے دوبارہ شادی کی اور اس سے تین بچے ہوئے ہیں۔خلیل کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک زندہ دل انسان تھا۔
ساتھی ورکر محمد شفیق نے کہاکہ ”ہم نے فیضان سے کہاکہ وہ لڑائی مت کرے اور گھر جائے‘ مگر ہمارے ایک بھی سننے کو تیار نہیں تھا۔
جب خلیل نے ورکرس کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے روکا تو اینٹ اٹھائے اور ماردیا“۔
بیکری کے مالک حاجی اعزاز الدین نے کہاکہ اسٹاف کے اندر خوف کاماحول ہے۔ انہوں نے کہاکہ ”میرے ملازم کی محض اس لئے موت ہوگئی کیونکہ اس نے گاہک کو ایک پلاسٹک کی تھیلی نہیں دی۔
کیاوہ کسی ایک انسان کی زندگی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے؟اگر میں پلاسٹک بیاگ نہیں رکھوں گا تو میرا کاروبار ٹاس پرچلے جائے گا۔ یہ بہتر ہوگا کہ جان گنوانے کے بجائے جرمانہ بھر لوں“۔
ایک پولیس افیسر نے کہاکہ ملزمین کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں