دہلی۔ دیوالی کے موقع پر نظام الدین درگاہ پر برقی قمقمے لگائے گئے

,

   

ہندو ہرسال درگاہ پرحاضری دیکر چراغ جلاتے اورمیٹھائی تقسیم کرتے ہوئے تہوار مناتے ہیں۔
نئی دہلی۔تہواریں ایک ایسا موقع ہوتا ہے جس میں لوگ بلاتفریق مذہب‘ ذات پات او رعقائد ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں۔

اور دیوالی ایسی طرح کا ایک تہوار جس کی لوگوں کو متحد کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے‘ مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن برائے ہند کے چیرمن ڈاکٹر شجا عت علی قادری نے یہ بات کہی ہے۔

دیوالی کے موقع پر دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاکے آستانے کو خوش نمارنگ برنگے برقی قمقموں سے سجایاگیاہے


پیرکے روز جب سارے ملک میں دیوالی منائی جارہی تھی‘ مذکورہ درگاہ نظام الدین اولیا کوبھی برقی قمقموں اور چراغ سے سجایاگیاتھا۔ دور دراز کے مقامات سے لوگ ائے اوردرگاہ میں چراغ جلائے اور ملک میں امن سلامتی کے لئے دعائیں مانگیں۔

درگاہ کے گدی نشین ناظم نظامی کے بموجب ہندو ہرسال درگاہ پرحاضری دیکر چراغ جلاتے اورمیٹھائی تقسیم کرتے ہوئے تہوار مناتے ہیں‘ جس کو مقامی سطح پر عیدِ چراغ بھی کہاجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ”حضرت نظام کے دعاؤں کے طور پر وہ کچھ دئے اور موم بتیاں یہاں سے اپنے گھر بھی لے جاتے ہیں“۔

نظام نظامی نے کہاکہ تقریب میں دیوالی کے جشن کی ایک قدیم تاریخ ہے کیونکہ یہ درگاہ بھی کافی قدیم ہے۔ نظامی نے کہاکہ ”حالانکہ درگاہ نے خود جشن کا انتظام نہیں کیاہے۔

اپنی مرضی سے ہندو برداران آتے ہیں‘ دیاجلاتے ہیں اور میٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ مقامی لوگ ان کے ساتھ جوڑ کر ان کے گرم جوشی اوردل سے استقبال کرتے ہیں اور بھائی چارہ کوفروغ دیتے ہیں۔

نظامی نے کہاکہ اس موقع پر وہ بارہ گاہ نظام الدین پر حاضری دیتے ہیں اور اشرواد لیتے ہیں اور درگارہ کے اطراف واکناف میں چراغ جلاتے ہیں۔پورے ماحول میں روشنی پھیل جاتے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت منظر ہوتا ہے“۔


نظامی نے کہاکہ کئی ہندو ایک یا دو چراﷺ اپنے گھر لے جاتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہوتا ہے کہ یہ ان کے تہوار میں اولیا کی دعائیں شامل ہوتی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بادشاہی حکومت کے دور کے دوران مختلف بادشاہوں او رمقامی سرداروں کے درمیان میں جنگ کے دوران امن کے پیغام کے طور پر درگاہ پر دئے جلانے کی رسم شروع ہوئی تھی۔

مورخ خواجہ احمد نظامی نے دیوالے کے جشن کو حضرت نظام الدین اولیاکے افسانے میں شامل کیاہے۔ صوفی شاعر اورمحبو ب الہی خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے شاگرد امیرخسرو نے اپنے پیارے پیر کے ساتھ ”رنگ“ کے جشن کو اپنی نامور فارسی اور برج زبانوں کی شاعری میں کے ذریعہ پیش کیاہے۔

ان کادعوی یہ بھی ہے کہ پہلاوی (تین سطور) پر مشتمل شاعری میں انہوں نے مذکورہ ”روشنی ِ زیست“ کواپنے دل کے قریب قراردیا ہے۔ قادری نے اس کو نقل کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے لکھا ہے”زیست آں رنگ زیست‘ زیست آں روشنی ِ زیست‘ برملا میں ازگاف جشن دورائے“۔

لکشمی پوجار کے موقع پر بھی مسلم چادر کے دوران درگاہ کے تمام راستوں پر دیئے جلائے جاتے ہیں۔ گنبد کو رنگ برنگے کپڑوں سے لکشمی پوجا کے موقع پر ہی منور نہیں کیاجاتا بلکہ بھائی دوج اور دیگر مذہبی تہواروں کے ایام پر بھی روشن کیاجاتا ہے۔ چ

راغوں کی موجودگی میں مغرب کے نماز کے وقت درگاہ میں دعائے روشنی کا بھی اہتمام کیاجاتا ہے۔

کئی غیرمسلم عقیدت مند دیوالی کے اگلے روز دئے کے ساتھ ااتے ہیں نے پی ٹی ائی کو بتایاکہ ان کا نام ظاہر نہ کریں کیونکہ نظامٹ الدین اولیا سے ان کی عقیدت شخصی ہے۔

تاہم انہوں نے مزیدکہاکہ درگاہ کوان مذہبی کے متعلق نہیں ہے۔ ان میں سے ایک نے کہاکہ ”یہ صرف امن وسکون کے لئے جو کہاں نہیں ملتا‘ صرف یہاں ملتا ہے۔

یہ صرف تجربہ سے ملتا ہے‘ یہ وہ جذبات ہیں جو بیان سے باہر ہیں۔

واضح رہے کہ راشٹرجایہ سیوم سیوک سنگھ (آ رایس ایس) کے قومی عاملہ کے رکن او رمسلم راشٹرایہ منچ کے سرپرست اندریش کمار نے ہفتہ کے روز حضرت نظام الدین درگا ہ پر حاضری دی او ربارگاہ کے اندر دیوالی سے قبل مٹی کے دئے جلائے۔ مذکورہ آر ایس ایس مسلم وینگ‘ مسلم راشٹریہ منچ ملک میں امن وسلامتی اور استحکام کی متمنی ہے