دہلی اور ممبئی کیلئے بدترین دن آئیں گے

   

برکھادت

سیاسی اعصابی مرکز اور معاشی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے دونوں شہر آج مشکلات کا شکار ہیں لیکن بدترین دن آئیں گے کیونکہ ایک ہی دن میں مرض کے شکار افراد کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ جاریہ ہفتہ ہوا۔ یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ ممبئی اور دہلی خاص طور پر متاثر ہیں لیکن احمد آباد اور چینائی بھی متاثر ہوگئے ہیں۔ ان تمام شہروں کے عوام فکرمندی کی گرفت میں ہیں۔ ہندوستان بھر میں سفر 16 ہزار کیلو میٹر کا اس وباء نے طے کرلیا ہے۔ میں نے قابل لحاظ وقت طبی انفرا اسٹرکچر کا دونوں مقامات پر مطالعہ کرتے ہوئے گذارا ہے۔ قبرستانوں میں تدفین کے لئے جگہ ڈھونڈنا پڑتا ہے اور شمشان گھاٹوں کا بھی یہی حال ہے۔
ممبئی میں سمندری طوفان کے زیر اثر موسلادھار بارش کے بعد میں نے ایک گھریلو خادمہ نرمدا سے ملاقات کی جو ممبئی کے نائر ہاسپٹل کے روبرو زندگی بسر کررہی تھی اور کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری (کووڈ ۔ 19) 11 دن سے اس کو لاحق تھی۔ یہ متاثرہ خاتون بیت الخلاء صاف کرتی تھی جبکہ سختی سے الگ تھلگ رکھنے والی بیماری کے دوران اسے بالکل الگ رہنا چاہئے۔ وہ کے ای ایم ہاسپٹل کے بیت الخلاء صاف کررہی تھی۔ میں نے لاوارث نعشوں کے انبار دیکھے ہیں رشتہ داروں کو کووڈ ۔ 19 سے متاثرہ بیماری کے مریضوں سے بغلگیر ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ بعض اوقات یہ لوگ فرش پر سوتے ہوئے بھی نظر آئے۔ عارضی طور پر بستروں کے درمیان کارڈ بورڈ کی پٹیاں لگائی گئی تھیں تاکہ انہیں علیحدہ ظاہر کیا جاسکے۔

دہلی میں میری ملاقات سیما کے فرزند سے ہوئی وہ ایک نرس کا اردلی ہے جسے علاج اور طبی جانچ دونوں سے محروم کیا گیا ہے۔ لوک نائک جئے پرکاش ہاسپٹل میں بھی اس کی جانچ اور علاج سے انکار کردیا گیا جہاں وہ کام کرتی تھی۔ دارالحکومت میں سب سے بڑا شمشان گھاٹ نگم بودھ گھاٹ ہے۔ میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جو اپنے چھوٹے بھائی کی چتا نہیں جلا سکا تھا کیونکہ اس کے لئے جگہ نہیں تھی۔ 10 دن تک وہ شمشان گھاٹوں کے درمیان پھنسا رہا۔ محمد صابر جس کی 40 سالہ بیوی کا جاریہ ہفتہ انتقال ہوا کہا کہ یہ ڈراونا واقعہ اب بھی میرے ذہن میں چکرا رہا ہے۔ ہم غریب ہیں ہم کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے ہیں۔
میں نے لاک ڈاون کی کبھی تائید نہیں کی، لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان شہروں میں اس کی تائید کرنے والے بھی واضح طور پر چند افراد ہیں۔ لاک ڈاون کے دوران اس پر عمل کرنا ممبئی اور دہلی دونوں جگہ بھی مشکل ہے۔ اسپتالوں میں بستروں کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے درحقیقت بسترکافی تعداد میں ہیں۔
ممبئی میں مثال کے طور پر صرف خانگی دواخانوں میں ہی 20 ہزار بستروں کی موجودگی کی سرکاری طور پر توثیق ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ ممبئی میں پانچ ہزار دیگر خانگی دواخانے ہیں۔ موٹے حساب سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کو تقریباً 5 ہزار بستروں کی ضرورت ہے جن میں سے 1250 شدید متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے آئی سی یو میں رکھے جانے چاہئیں۔

نظریاتی اعتبار سے کوئی قلت نہیں ہے۔ عملی اعتبار سے کیا ہو رہا ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ حفظان صحت کا عملہ کم ہے، بستر نہیں۔ کیا ایسا اس لئے ہے کہ کم عمر شہری وباء سے متاثر ہیں یا کیونکہ وارڈ میں ارکان عملہ کم ہیں وہ مقامی ٹرینوں کی عدم موجودگی میں سفر کرنے سے قاصر ہیں یا پھر اس لئے کہ کئی حفظان صحت ماہرین خاص طور پر خانگی اسپتالوں میں اپنی ڈیوٹی پر نہیں آرہے ہیں۔
ممبئی کا ایک واقعہ سے درست مثال حاصل ہوگا۔ نیشنل اسپورٹس کلب آف انڈیا جو ماضی میں راک کنسرٹ ایونیو تھا اب 600 بستروں پر مشتمل ایک مثالی دواخانہ ہے جس کی قیادت ڈاکٹر مفضل لکڑوالا کرتے ہیں۔ یہاں پر متعلقہ فرقہ کے افراد کا مستقل طور پر علاج کیا جاتا ہے۔ یہاں پر گشتی ایکسریز موجود ہیں۔ یہ اجتماعی طبی جانچ میں شامل ہے۔ یہ آئی سی یو کے لئے خریدا گیا تھا۔ اس شعبہ کے ایکسریز کو پہیئے لگے ہوئے ہیں اور ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان بغیر رابطہ کے بوتھ بنائے گئے ہیں۔
کینسر کے مریضوں، حاملہ خواتین، عمر رسیدہ افراد اور ایسے مریضوں کے لئے جنہیں مسلسل آکسیجن دی جاتی ہے، الگ الگ شعبے موجود ہیں۔ یہاں پر پورے جوش کے ساتھ سائنس پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ ایک مثالی مقام بن گیا ہے۔ ڈاکٹرس، نرسیس اور دیگر درمیانی کارکن بہت کم ہیں اور دواخانہ میں والینٹرس کا استقبال کیا جاتا ہے۔
دہلی میں اس کے برعکس لاک ڈاون کی مدت کے دوران عارضی بڑے بڑے دواخانے اسٹیڈیمس اور کالجس میں قائم کئے گئے ہیں۔ اس کی ممبئی کے برعکس فوری ضرورت تھی۔ حالانکہ پھر بھی یہ کارروائی کافی تاخیر سے کی گئی۔ اس لئے وہ خانگی دواخانوں کی فیس پر قابو نہیں رکھ سکا۔ حفظان صحت کے ردعمل پر ایک طبقہ منتشر رائے رکھتا ہے۔ اخلاقی اعتبار سے اس کے خیال میں یہ غلطیوں سے بھرا اقدام ہے۔
حکومتوں کو اس ٹوٹے پھوٹے نظام کو مرکز توجہ بنانا چاہئے تھا اس کے بجائے انہوں نے خانگی دواخانوں اور لیباریٹریز کو فروغ دیا اور کم طبی معائنوں کا ذمہ دار دباؤ کو قرار دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہیجان لوگوں کے مرض میں مبتلا ہونے کی طبی توثیق کے بعد پیدا ہوا تھا۔ کووڈ ۔ 19 کے لئے کی ہوئی طبی جانچ کے نتیجہ میں مثبت نتائج حاصل ہوئے۔ ہماری مرکز توجہ اموات کی تعداد میں اضافہ ہے، مریضوں کی تعداد میں نہیں۔

بنیادی مسائل میں جن کی فوری یکسوئی دونوں شہروں میں کی جانی چاہئے یہ ہے کہ ان ریاستوں کے حفظان صحت ملازمین سے سوالات کئے جانے چاہئیں کہ آخر وہ صورتحال کو فوری بہتر بنانے کے لئے کیا کررہے ہیں۔ احکامات جاری کرنے کا سلسلہ مسلسل ہونا چاہئے۔ کئی عہدہ داروں کو اپنی انا کی خاطر آپس میں معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا نہیں کرنا چاہئے جیسے مختلف مقامات پر ڈاکٹروں کے تبادلہ وغیرہ پر ہو رہے ہیں۔

جن افراد کی اپنے گھر میں مقیم ہونے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور انہیں بات بات پر دواخانہ نہیں لے جانا چاہئے جبکہ انہیں معمولی علامتیں ظاہر ہوں۔ دیکھا گیا ہے کہ پی سی آر کٹس اور دیگر طبی معائنے جیسے ایکسریز صرف موثر طریقے سے کئے جانے چاہئیں۔ آگزی میٹرس اور درجہ حرارت کے معائنے بہت کم کئے جانے چاہیں۔

آکسیجن کے استوانے ڈبوں میں رکھے جانے چاہئیں تاکہ انہیں ایسے وقت خریدا جائے جبکہ مریضوں کی سانس پھول رہی ہو اور ایمبولنس آنے تک انہیں استعمال کیا جاسکے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومتوں کو چاہئے کہ مریضوں کے بارے میں خانگی دواخانوں سے بات کریں اور مریضوں، خاندانوں کو تسلی دیں، مشورے دیں یا مختلف دواخانوں کو روانہ کریں جہاں پر بستر خالی ہوں۔
سب سے پہلے میں نے دیکھا کہ ہندوستان کی پہلی ریاست جو سڑک پر پیدل چلنے والے تارکین وطن کی مدد کررہی تھی، اب یہ کام دواخانوں کے باہر کیا جارہا ہے، قبرستانوں میں کیا جارہا ہے۔ کووڈ ۔ 19 سے متاثرہ مریضوں کے آخری رسومات کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، یہ لاوارث نعشیں نہیں ہیں۔
فوری طور پر کوئی گشتی آلہ دستیاب نہیں ہے جس کو حقیقی شخص کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔