دہلی تشدد کے بعد سٹیزن پینل نے امن قائم کرنے کے لئے جدوجہد کی شروعات کی

,

   

نئی دہلی۔ شمال مشرقی دہلی میں اتوار کو بھی امن برقرار رہا‘ حالانکہ شہر کے کچھ دیگر مقامات پر تشدد کے افواہوں کے پیش نظر پولیس کے عہدیداروں نے نہ صرف چوکسی اختیار کی تھی بلکہ ان افواہوں کو روکنے کے لئے بھی موثر کاروائیاں انجام دی۔

حالانکہ شہر میں بھاری تعداد میں پولیس کی تعیناتی کی گئی تھی اور شہر کی اہم سڑکوں پر لوگوں اور گاڑیوں کی آمددرفت میں تیزی اور اضافہ بھی دیکھا گیاہے۔پ

چھلے تین دنوں میں کوئی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن ایک عجیب وغریب خاموشی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی‘ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں‘ گلیاں سنسان رہیں اور گھروں پر قفل لگے ہوئے تھے۔

مصطفےٰ آباد میں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے بھی گریز کررہے تھے۔شیو وہار کی ایک کپڑوں کی دوکان کے مالک نے کہاکہ ”ہم نے عید‘ ہولی او ردیوالی ایک ساتھ منائی ہے۔

میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کیاہے“۔

جبکہ تشدد رک گیا مگر ابھی بھی بہت کیا جانا باقی ہے۔

او ریہاں سے امن قائم کرنے کیلئے شہری سمیتی نے اپنا رول ادا کیاہے۔

امن شانتی سمیتی کے ایک سرگرم کارکن اور جعفر آباد کے ساکن محمد وصیل جو راحت کیمپ کا ڈیرہ نصب کرنے میں مصروف تھا نے کہاکہ ”بے گھر ہوئے لوگوں کو واپس لانا سب سے بڑا چیالنج ہے کیونکہ فسادات نے نسل در نسل ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے درمیان میں ایک بہت بڑا عدم اعتماد پیدا کردیاہے۔

شیو وہار جیسے علاقے کے لوگ اپنا گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں‘ مجھے نہیں لگتا کہ وہ حفاظت کی تمانعت تک واپس لوٹیں گے۔

لوگ زیادہ تر ذاتی وسائل کے ذریعہ راحت پانے کی کوشش کررہے ہیں۔

لیکن یہ ایک چیز نہیں ہے جو عام زندگی کی شروعات کے لئے کی جاتی ہے“۔

عام آدمی پارٹی حکومت نے گیارہ شیلٹر گھروں کو راحت کیمپوں میں تبدیل کردیاہے۔ لیکن شائد ہی کوئی وہاں پر آنے والا تھا کیونکہ سب کے لئے حفاظتی انتظامات کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔

سماجی جہدکار ا ور سابق ائی اے ایس افیسر ہرش مند ر کے بشمول کئی شہری سماج کے ممبرس نے ”امن کے لئے“ شہریو ں سے اجتماعی اپیل کی ہے۔

مندر نے ایک ٹوئٹ میں لکھا’کچھ راحت کیمپوں کے قیام کے ذریعہ ریاست کی جانب سے گھروں کوچھوڑ کر جانے والے کی بازآبادکاری کے ذریعہ پیدا شدہ خلاء کو پرکرنے کا اقدام اٹھایاگیاہے۔

ماہر معاشیات شوپریا نگم کے مطابق بات چیت میں شہریوں کے اہم اتحاد جس میں مذہبی رہنما‘ مقامی گروپس کے علاوہ سینئر اور عام شہری اس میں شامل تھے‘ جو امن کے پیغام کو عام کرنے کی اس مہم کا حصہ بننا چاہتے تھے۔

نگم نے کہاکہ ہم مقامی اجلاسوں میں مدد کررہے ہیں‘ مختلف ہلپ لائن‘ امن کے نفاذ کے لئے یاترا اور مظاہروں کے اشتراک کے لئے تناؤ کم کرنے اور شانتی قائم رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں“۔ نگم نے کہاکہ اس کو ہم نے ”امن کی آواز“ کا نام دیاہے۔

دوارکا میں ہجوم کی جانب سے نعرے بازی کے بعد پتھراؤ کی افواہوں کے بعد اس گروپ نے جنتر منتر پر شانتی مظاہرہ کیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں کشیدگی اورتناؤ کی صورتحال ہے ان علاقوں میں 350سے زائد امن اجلاس منعقد کئے گئے ہیں۔

اسی طرح مدن پور کھدر کے شاہین باغ میں اکٹھا ہونے کا منصوبہ بنانے والے ایک بڑے گروپ کے بارے میں پولیس کوجانکاری ملنے کے بعد امن سمیتی کا اجلاس طلب کیاگیاتھا۔

شمال مشرقی دہلی میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک جعفر آباد میں مولانا محمد داؤد دونوں فرقوں کے بزرگوں اور سیاسی قائدین سے مل کر امن اجلاس طلب کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں تاکہ دونوں کے درمیان میں سدبھاو کو بحال کیاجاسکے۔

جعفر آباد میں باب العلم مدرسہ کے جنرل سکریٹری داؤد نے کہاکہ ”فساد کچھ دنوں تک چلتا ہے لیکن دشمن قائم رہتی ہے‘ہمیں بھروسہ بحال کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے“۔

وہ کئی واقعات کو یاد کرتے ہیں جہاں انہوں نے دوسروں کے ساتھ ملکر حالات کو بے قابو ہونے سے بچالیاتھا۔

مخالف اور موافق سی اے اے احتجاجیوں کے درمیان ہوئی جھڑپوں میں اب تک 40سے زائد لوگوں کی موت ہوگئی ہے۔

تین دہوں کے دوران دہلی میں ہوئے فسادات میں پولیس نے 254ایف ائی آر درج کی ہیں اور 995لوگوں کو گرفتار یاحراست میں لیا ہے۔

ارمس ایکٹ کے تحت جملہ41معاملات درج کئے گئے ہیں۔

قدیم مصطفےٰ آباد میں امن کمیٹی کے ایک رکن نے کہا”مشترکہ آبادی پر مشتمل علاقوں میں رہنے والے کئی لوگ پہلے ہی باہر نکل چکے ہیں اور انہیں واپس آنے میں وقت لگے گا۔

یہ ایک لمبی سڑک ہے مگر ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہئے“۔آرٹ اف لیونگ کے شری شری روی شنکر نے اتوار کو برہم پور کے بشمول فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور لوگوں سے بھروسہ دلایا۔

انہوں نے کہاکہ ”یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی ہے کہ اتنے سارے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ہمیں انہیں اس صدمہ سے باہر لانا ہوگا اور ان کی زندگی کو پٹری پر لانا ہوگا“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ایسا کرنے کے لئے سبھی کو ایک ساتھ آنا ہوگا۔ہمیں ان لوگوں سے سیکھنا چاہئے جنھوں نے دوسروں کو بچایاہے۔ جو انسانیت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں“