دہلی تشدد ۔ قتل عام کی ابتدا

   

رام پنیانی
کہتے ہیں کہ ’’تاریخ خود کو پہلے سانحہ کے طور پر دہراتی ہے اور پھر بطور سراب‘‘۔ بھارت کے معاملے میں فرقہ وارانہ تشدد نہ صرف خود کو بار بار دہراتا ہے، بلکہ اس سانحہ کا نہج ہر اگلی مرتبہ بدلتے رہتا ہے۔ تشدد کی بعض خصوصیات مستقل ہیں، لیکن ان کو اکثر پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ یہی کچھ دہلی تشدد (فبروری 2020ء) کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے۔ توضیح و تشریحات، اسباب بننے والے عوامل کافی قابل امتیاز ہیں، لیکن وہ جو عام طور پر (جرم کے) مرتکبین ہوتے ہیں، انھیں مظلوم کمیونٹی یا اُن کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں پر سارا الزام تھوپ دینے کا گُر آتا ہے۔ یہ مان لیا جائے کہ قتل عام کا پس منظر بی جے پی کے کپل مشرا کا بیان ہے جو اعلیٰ پولیس عہدہ دار کی موجودگی میں دیا گیا، جس میں مشرا نے راستے کھلوانے کیلئے دھمکایا۔ تاہم، تشدد کے بیج پہلے ہی بوئے جاچکے تھے۔
ہندو نیشنلسٹ کیمپ کی بتائی گئی تشریح یوں ہے کہ یہ فساد اس علاقہ کے بدلتے آبادیاتی خاکے کے سبب ہوا، کیونکہ وہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے، اور پھر ’’شاہین باغ‘‘ احتجاج شروع ہوا جسے ’مِنی پاکستان‘ کے طور پیش کیا جارہا ہے۔ اُن کے مطابق تین طلاق، آرٹیکل 370 اور CAA، NPR، NRC کے امور میں بی جے پی کی پالیسیوں نے ’کٹر‘ عناصر کی ہمت پست کردی اور اسی لئے تشدد پیش آیا۔ بہرحال ہندوستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں جہدکاروں اور اسکالرز کے تاثرات پر نظر ڈالنے سے قبل ہم مختصراً کہہ سکتے ہیں حالیہ تشدد میں تقریباً 46 افراد مارے گئے جن میں پولیس سے ایک اور انٹلیجنس شعبہ سے ایک ملازم شامل ہیں۔ مہلوکین کی اکثریت مسلمان ہیں۔
تشدد پولیس اور برسراقتدار پارٹی کی ناک کے نیچے شروع ہوا۔ ویڈیوز اور دیگر عینی شواہد کے مطابق پولیس نے نہ صرف کئی جگہ تشدد کو دیکھ کر منھ پھیر لیا، بلکہ بعض مقامات پر تو اس نے بے قصور لوگوں پر حملے، آتشزنی اور مخصوص دُکانات کو لوٹنے میں مدد بھی کی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ پورے تشدد کے دنوں میں منظر سے غائب رہے۔ تین دنوں تک فسادیوں کو کھلی چھوٹ ملی۔ جب نیم فوجی دستے لائے گئے، تب تشدد تھما اور بتدریج شدت میں کمی آئی۔ریاستی عآپ حکومت جو ایک طرح سے آر ایس ایس کی ضمنی پیداوار ہے جس نے انا ہزارے موومنٹ کی حمایت کی تھی، دہلی کے حصوں میں جاری خونریزی پر آنکھیں بند کئے ہنومان چالیسا پڑھنے اور راج گھاٹ پر دعا کرنے میں مصروف تھی۔
فرقہ وارانہ تشدد ہندوستانی سماج کا تلخ نکتہ ہے۔ اس کی شروعات سامراجی دور میں ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘‘ کی برطانوی پالیسی کے سبب ہوئی۔ کلیدی سبب تاریخ پر فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے نگاہ ڈالنا اور انگریزوں کی خاص قسم کی حرکتیں رہی ہیں کہ ہندو۔ مسلم انتشار کے بیج بوئے جائیں۔ نظم و نسق اور پولیس کی دیگر سطح پر برٹش نے کافی غیرجانبدارانہ موقف اپنائے رکھا۔ ایک طرف قومی تحریک چل رہی تھی، جو لوگوں کو متحد کرتے ہوئے تمام ہندوستانیوں میں بھائی چارہ کا احساس پیدا کرتے ہوئے اسے مضبوطی عطا کررہی تھی۔ دوسری طرف مسلم کمیونلسٹس (مسلم لیگ) اور ہندو کمیونلسٹس (ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس) تھے جنھوں نے برادریوں کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دیتے ہوئے ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کے برطانوی مقصد میں اعانت کی۔
تقسیم ہند کے بعد پہلی بڑی تبدیلی پولیس اور اڈمنسٹریشن کے رویہ میں رہی جو مسلمانوں کے خلاف دکھائی دینے لگی۔ ڈاکٹر اصغر علی انجینئر، پال براس اور عمر خالدی کے نمایاں تحقیقاتی جائزوں سے ظاہر ہوا کہ فسادات کے دوران اور بعد میں مخالف مسلم جانبداری نمایاں ہے۔ اب پولیس کا جانبدارانہ رول پوری طرح ظاہر ہے۔ سری کرشنا کمیشن رپورٹ نے اس حقیقت کو اُجاگر کیا؛ اور اسی طرح کا کام سابق ڈی آئی جی، یو پی پولیس ڈاکٹر وی این رائے کی ریسرچ نے کیا ہے۔ ڈاکٹر رائے کے تحقیقی جائزے میں یہ بات بھی اخذ کی گئی کہ جب تک ریاستی نظم و نسق کسی تشدد میں راست یا بالواسطہ ملوث نہ ہو، کوئی فرقہ وارانہ فساد 24 گھنٹے سے زیادہ چل نہیں سکتا۔ تشدد کے ایک واقعہ (دھولے، 2013ء) میں جس کی تحقیقات کنسرنڈ سٹیزنس ٹیم نے کی، اس کی رپورٹ میں اخذ کیا گیا کہ پولیس نے خود مسلمانوں اور مسلم املاک کے خلاف تباہی مچائی۔
فسادات کے تعلق سے عام تاثر یہی نکلتا ہے کہ تشدد دفعتاً پیش آتا ہے، جیسا کہ وزیر داخلہ نے نشاندہی کی ہے، لیکن یہ اچھی طرح منصوبہ بند عمل بھی ہوتا ہے۔ تشدد کچھ اس انداز میں منظم کیا جاتا ہے کہ ظاہر طور پر یہ مسلمانوں کی طرف سے شروعات معلوم ہوتی ہے۔ پہلا پتھر کس نے مارا؟ اس سوال پر اسکالرز نشاندہی کرتے ہیں کہ قتل عام اس قدر منظم ہوتا ہے کہ پریشانی میں گھری کمیونٹی کو پہلا پتھر پھینکنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر حیلہ بہانہ کیا جاتا ہے کہ ’انھوں‘ (اقلیتوں) نے پہلا پتھر پھینکا ہے۔
اقلیتوں کے خلاف حیلے بہانے پھیلائے جاتے ہیں؛ گجرات تشدد میں گودھرا ٹرین آتشزنی، کندھامل میں سوامی لکشمانند کا قتل، اور اب شاہین باغ! ہندو۔ مسلم تشدد کی شروعات فسادات کے طور پر ہوئی تھی۔ لیکن اب یہ فساد نہیں رہا ہے، دونوں فریق اس میں ملوث نہیں ہیں۔ یہ بس سیدھا سادھا مخالف اقلیت تشدد ہے، جس میں اکثریتی برادری سے بھی کوئی شکار ہوجاتا ہے۔اس قسم کا تشدد ’اقلیت کے خلاف نفرت‘ کے طور پر ممکن ہے اور اب یہ بڑی حد تک طبقاتی ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زیادہ گہری اور عیسائیوں کے خلاف جزوی نفرت طویل عرصے سے پیدا کی گئی ہے۔ اس کو پھیلانے کیلئے ہندو نیشنلسٹ پالیٹکس کو اس کی شاکھاؤں سے لے کر سوشل میڈیا تک حرکت میں رکھا جارہا ہے۔ موجودہ گہری نفرت اِس مرتبہ بی جے پی قائدین کی طرف سے کئی بیانات کے ذریعے پیدا کی گئی، جیسے ’’کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں‘‘ (مودی)، ’’ای وی ایم مشین کا بٹن اتنی زور سے دبائیں کہ شاہین باغ میں کرنٹ محسوس ہو‘‘ (شاہ)، ’’گولی مارو‘‘ (انوراگ ٹھاکر)، ’’اگر بولی سے کام نہ چلے تو گولی سے چلے گا‘‘ (یوگی آدتیہ ناتھ) اور ’’وہ گھروں میں گھس کر ریپ کریں گے‘‘ (پریش ورما)۔
اس سارے سانحہ میں عآپ کا حقیقی رنگ بھی اُبھر آیا ہے، جس نے نہ صرف خاموشی اختیار کررکھی جبکہ قتل عام بڑھتا جارہا تھا بلکہ پورے معاملے میں پولیس کے رول کی تعریف بھی کردی۔ دہلی قتل عام کے ساتھ ’’گولی مارو‘‘ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کٹر ہندو عناصر کا مرکزی نعرہ بنتا جارہا ہے۔ دہلی کا یہ تشدد اپنی نوعیت کا پہلا ہے جس میں موت کا زیادہ تر سبب بندوق کی گولیاں بنی ہیں، نہ کہ تلواریں اور چاقو! لیڈر کے نعرے رائیگاں نہیں جاتے! ہمارے دستور کے محافظ عدالتیں بے وقعت نظر آنے لگی ہیں کیونکہ اُن میں سے کوئی مثلاً مرلیدھر راؤ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دیتے ہیں تو ان کا فوری تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ آخر میں ییل یونیورسٹی کی اکیڈیمک اسٹیڈی کو یاد کرتے ہیں۔ اس میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ بی جے پی کو ہر فساد کے بعد انتخابی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ہندوستان میں فرقہ پرستی میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نفرت اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف لڑنے کی کوششیں درکار ہیں۔
ram.puniyani@gmail.ocm