دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی کشمیری طلبہ کو مشکلات

,

   

کرایہ کا مکان حاصل کرنا مشکل، کشمیر میں ارکان خاندان سے مواصلاتی رابطہ بھی ہنوز بند

نئی دہلی ۔ 20 ۔ نومبر (سیاست ڈاٹ کام) کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کشمیریوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے ۔ 5 اگست کے بعد کشمیری طلبہ کو دہلی میں کرایہ پر مکان نہیں دیا جارہا ہے ۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ دیگر دو افراد کے ساتھ اس کو تین بیڈروم والا فلیٹ خالی کرنے کیلئے کہا گیا جہاں وہ گزشتہ دو برسوں سے مقیم تھا ۔ مکاندار نے خالی کروانے کی وجہ گھر کی مرمت بتائی ۔ طلباء کو شک ہے کہ صرف کشمیری ہونے کی وجہ سے انہیں خالی کروایا جارہا ہے ۔ جامعہ نگر میں دوسرا کرایہ کا مکان تلاش کرنا اس کیلئے مشکل ہوجائے گا کیونکہ اس کی شناخت کشمیری ہے۔ 1980 ء میں کشمیر میں عسکریت پسند کارروائیوں میں اضافہ کے بعد سے دیگر مقامات پر رہنے والے کشمیریوں کو اکثر و بیشتر خطرات اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ دہلی میں کئی مسلم کشمیریوں کو کرایہ کا مکان تلاش کرنا چیلنج سے کم نہیں ۔ تینوں افراد کو فلیٹ خالی کرنے کیلئے مکان دار نے کہہ دیا جس کے بعد وہ جامعہ نگر کے اطراف کسی اور مکان کیلئے بروکر سے رجوع ہوئے ۔ جامعہ نگر ، جنوبی دہلی کا مسلم اکثریتی علاقہ ہے جو اترپردیش کی سرحد سے قریب ہے جہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کئی طلباء رہتے ہیں ۔ تینوں کو فلیٹ خالی کرنے کیلئے دو ہفتوں کا وقت دیا گیا ۔ انہوں نے جامعہ نگر ، ذاکر نگر، غفار منزل اور اوکھلا وہار میں اپارٹمنٹ کرایہ پر حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی ۔ مکان کرایہ پر دینے سے انکار کی وجہ بروکر سے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہاں کشمیریوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے ۔

دہلی کے بشارت علی نے جن کی توجہ سیاسی تشدد پر مرکوز ہوتی ہے ، فیس بک پر ایسا ہی پوسٹ تحریر کیا ہے ۔ دہلی کے ذاکر نگر ، باٹلہ ہاؤز، اوکھلا وہار میں کشمیریوں کو مکان کرایہ پر دینے سے انکار کیا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں بھی انکار کیا جارہا ہے ۔ غیر مسلم بستیاں بھی ان کیلئے زیادہ کھلی ہوئی نہیں ہیں ۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ یہ مقامات کشمیریوں کیلئے محفوظ نہیں ہیں۔ دہلی میں رہنے والی 26 سالہ جامعہ ملیہ کی پی ایچ ڈی کی طالبہ نے بتایا کہ جامعہ نگر کے مقابل جولینا میں وہ 6 سال سے مقیم ہے ۔ وہ اب مقام تبدیل کرنا چاہتی تھی لیکن ارکان خاندان اور رشتہ داروں نے مسلم اکثریتی علاقہ میں رہنے پر ہی اطمینان کا اظہار کیا ۔ اکتوبر میں ایک مکان کی تلاش کے دوران مکان دار کی جانب سے مکان دکھانے سے انکار پر بروکر نے بتایا کہ کشمیری ہونے کی وجہ سے وہ جھجھک رہا ہے ۔ بروکر کی بھرپور کوشش کے باوجود مکان دار نے انکار کردیا۔ ایک اور مقام پر بھی لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ بعض کشمیریوں نے اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے اپنی اس ضرورت کو پورا کیا اور بعض نے مکان دار کو بتایا کہ ان کا تعلق لکھنو یا کسی اور مقام سے ہے ۔ بعض صورتوں میں شناخت چھپانا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ 370 کی منسوخی کے بعد کئی طلباء اپنے ارکان خاندان سے رابطہ قائم کرنے سے قاصر ہیں اور کرایہ ادا کرنے کی ان کے پاس گنجائش نہیں ہے ۔ مکانداروں سے کرایہ ادا کرنے کیلئے مہلت مانگی جارہی ہے ۔ بعض طلباء سے پولیس اسٹیشن میں تصدیق کے فارم کو پر کرنے کیلئے کہا جارہا ہے۔ کئی کشمیری طلباء نے بتایا کہ گھر والوں سے رابطہ نہ ہونے سے ان کو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ یہ کشمیریوں کی سیفٹی اور بہتری کیلئے ہے۔