دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی ناگزیر

   

دینی مدارس اسلام کے قلعے اور اسلامی تربیت کے مراکز ہیں جہاں اس اُمت کے مخصوص طبقہ کو دین اسلام کی تعلیم و ترویج کیلئے علمی ، اخلاقی اور روحانی طورپر تیار کیا جاتا ہے ، طلباء دینی مراکز میں اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوکر خدمت دین کے جذبہ کے ساتھ ملت اسلامیہ کی دینی و شرعی رہنمائی و رہبری کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیتے ہیں۔ دینی مدارس کا نصاب تعلیم ، اساتذہ کی فنی لیاقت و تربیت نیز مدرسہ کا دینی ماحول، مشفقانہ و متواضعانہ طریقہ کار طلباء کے ذہن و فکر اور طرز معاشرت پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ مخلص و دیندار متشرع اساتذہ کرام کی صحبتیں اسلام کی اسپرٹ کو منتقل کرنے میں نمایاں رول ادا کرتی ہیں ۔ بناء بریں مسلم معاشرہ میں علماء کرام کو قدر و وقار سے دیکھا جاتا ہے اور انہی سے دینی و شرعی رہنمائی و قیادت کی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔
آج ہندوستان ہی نہیں سارے عالم اسلام کا جائزہ لیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ عصر حاضر کے علماء کرام ، دور حاضر میں مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہیں، ساری دنیا میں اسلام ’’برائی کا محور ‘‘ باور کیا جارہا ہے ، بہ بانگ دہل اسلام اور اہل اسلام کی مسلسل توہین کی جارہی ہے ۔ شکوک و شبہات قائم کئے جارہے ہیں ، عوام الناس کو اسلام سے متعلق خوفزدہ و بدظن کیا جارہاہے ۔ ایسے پرآشوب دور میں ان مردان باہمت کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جو اس ماڈرن دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر کو پیش کرے اور ان کی ذہن و فکر کے مطابق اسلام کی حقانیت و صداقت کو آشکار کریں۔ ہندوستان میں جہاں دینی مدارس و جامعات کا ایک لامتناہی جال بچھا ہوا ہے ، ہر چھوٹے ، بڑے دیہات میں مسجد ، مدرسہ ملے گا ۔ ہر شہر و ریاست میں بڑے بڑے دینی و اقامتی مراکز و درسگاہیں قائم ہیں۔ ہزارہا طلباء ہر سال دینی مدارس سے بلالحاظ مکتب و مسلک فارغ التحصیل ہورہے ہیں ، لیکن ہندوستان میں جس نوعیت سے اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں موقعہ بے موقعہ اسلام کے خلاف پروپگنڈے کئے جارہے ہیں ۔ ایسے ماحول میں دینی مدارس و جامعات کے اساتذہ و طلباء منظرعام پر آکر اسلام کے حقیقی پیغام رواداری ، پیار و محبت ، صلح و آشتی کو پیش کرنے میں صدفیصد ناکام ہیں۔

ہندوستان کے دینی مدارس و جامعات میں درس نظامی عرصہ دراز سے مقبول و متداول ہے ، علماء کرام اس میں تبدیلی کیلئے قطعاً آمادہ نہیں تاہم دور حاضر میں ہندوستان کی موجودہ پرخطر صورتحال میں دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی اور بعض اہم عصر حاضر سے تعلق رکھنے والے مواد کا اضافہ ناگزیر ہے ۔ مثال کے طورپر دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں دستور ہند اور دستور ہند کے تحت اقلیتوں کو حاصل شدہ حقوق و مراعات سے عصر حاضر کے علماء کرام کا واقف ہونا ازحد ضروری ہے ۔ علاوہ ازیں غیراسلامی ملک میں مسلمان اقلیت میں ہوں تو اُن کے لئے غیرمسلم اکثریت کے ساتھ معاملات اور غیرمسلم ملک کے ملکی قوانین کی تنفیذ و تعمیل سے متعلق فقہی احکام سے آگاہی ضروری ہے ۔ بناء بریں ’’فقہ الاقلیات‘‘ پر توجہہ مرکوز ہونی چاہئے۔ نیز آئے دن ہندو راشٹرا کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور مسلم دور حکمرانی میں ظلم و زیادتی کے من گھڑت قصہ عام کئے جاتے ہیں۔ علماء کرام کا ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی تاریخ اور ان کے رواداری اور بقائے باہم پر مبنی شاہی فرامین و سلوک سے آگاہی ضروری معلوم ہوتی ہے ۔
اورنگ زیب جب تخت نشین ہوئے تو آپ کے ایک استاذ منصب کی خواہش میں درباری امراء سے ربط و ضبط بڑھائے اور بلند پایہ منصب کے در پے ہوئے تو اورنگ زیب نے ان کے سامنے نہایت چشم کشا تقریر کی جو کسی بھی ادارہ کے نصاب تعلیم کی ترتیب میں پیش نظر رکھنا مفید ثابت ہوگا چنانچہ وہ اپنے استاذ سے تخلیہ میں کہتے ہیں ۔
’’مولانا ! آپ کے خواہش کیا ہے ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو دربار کے اول درجہ کے امراء میں داخل کرلوں ؟ میں جانتا ہوں کہ آپ کا مجھ پر حق ہوتا ، اگر آپ مجھے کوئی تعلیم دیتے ، لیکن آپ نے مجھے کیا پڑھایا ؟ آپ نے مجھے بتایا کہ فرنگستاں ایک معمولی سا جزیرہ ہے ، جہاں سب سے بڑا بادشاہ … پرتگال کا حاکم تھا پھر ہالینڈ کا بادشاہ ہوا اور اب شاہ انگلستاں ہے ۔ فرانس اور اندلس کے حکمرانوں کے متعلق آپ نے مجھے بتایا کہ وہ ہمارے معمولی راجاؤں کی طرح ہیں اور شاہنشاہان ہندوستان ان سب حکمرانوں سے بڑے ہیں۔ انہی میں ہمایوں ، اکبر ، جہانگیر اور شاہجہاں ہوتے ہیںجو شاہان عظیم ، فاتحانِ جہاں اور بادشاہان عالم ہیں۔ آپ نے مجھے بتایا کہ ایران، کاشغر، تاتار، پیگو سیام اور چین کے حاکم شاہ ہند کا نام سنکر کانپتے ہیں ۔

سبحان اﷲ ! آپ کے علم جغرافیہ اور تاریخ دانی کا کیا کہنا ! کیا آپ کا فرض نہ تھا کہ آپ مجھے دنیا کی تمام قوموں کی خصوصیات سے آگاہ کرکے یہ بتاتے کہ ان ملکوں کی پیداوار اور ان کی جنگی طاقت کا کیا حال ہے ۔ یہ لوگ لڑتے کس ڈھب سے ہیں ۔ ان کے رسم و رواج اور مذہب و حکومت کے طریقے کیسے ہیں؟ ان کی پولیٹکل پالیسیاں کیا ہیں ؟ آپ کا فرض تھا کہ مجھے تاریخ کی باقاعدہ تعلیم دیکر حکومتوں کے آغاز اور ان کی ترقی و تنزل کے اسباب بتاتے ۔ ان واقعات ، حادثات اور غلطیوں سے آگاہ کرتے جس کی وجہ سے بڑے بڑے انقلابات ظہور میں آتے ہیں ۔ خیر دنیا کی تاریخ سے پوری اور گہری واقفیت دلانا درکار آپ نے مجھے میرے آباء و اجداد کے نام بھی پوری طرح نہیں بتائے ۔ آپ نے یہ خیال نہ کیا کہ ایک شہزادے کی تعلیم کیلئے کونسے مضامین درکار ہیں ۔ یہی سمجھا کہ مجھے بس صرف و نحو کی بڑی مہارت چاہئے اور مجھے وہ علم حاصل کرنا چاہئے جس کی ضرورت ایک قاضی فقیہہ کو ہوتی ہے اسطرح آپ نے میری جوانی کا قیمتی زمانہ لفظوں کے سیکھنے کی خشک بے فائدہ اورلامتناہی کوشش میں صرف کردیا ۔

آپ مجھے وہ علم سکھاتے جو عقل اور سمجھ کے اصولوں پر دماغ کی تربیت کرتا ہے اور اسے صحیح اور وزنی دلائل کا طلبگار بناتا ہے یا مجھے وہ باتیں بتاتے جن سے حوادث زمانہ کے مقابلے میں انسان اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ نہ مصائب اس کو پریشان کرتے ہیں اور نہ خوشی اور کامیابی سے اس کا دماغ بگڑتا ہے ۔ یا اگر آپ مجھے انسانی فطرت کے رموز سے واقف کرادیتے یا مجھے دنیا کا ، اس کے مختلف حصوں کا اور اس کے نظام کا پورا پورا حال بتادیتے تو مجھ پر آپ کے احسانات سکندر اعظم پر ارسطو کے احسانات سے بڑھکر ہوتے اور میں پوری طرح آپ کی قدر افزائی کرتا‘‘۔ ( تاریخ ہندوستان رود کوثر مصنف شیخ اکرم ص ۴۶۴۔۴۶۵) یہ اندراج برنیر کے سفرنامے سے ماخوذ ہے ۔ بعض اہل تحقیق کے مطابق یہ عالمگیر کے خیالات نہیں بلکہ برنیر کی تخلیق ہیں تاہم جو اعتراضات اس میں درج ہیں وہ اس قدر وزنی ہیں کہ انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ طالب علمی کے زمانے کے اوقات کس قدر قیمتی ہوتے ہیں۔ ان اوقات سے صحیح فائدہ اُٹھانا ، بہترین لائق اساتذہ فراہم کرنا اور جامع نصاب تعلیم تیار کرنا ذمہ داران کا اہم فریضہ ہے۔