دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

   

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ہم تمہیں تھوڑے خوف اور بھوک کی آزمائش میں ضرور ڈالیں گے اور مال و جان کی کمی کے ذریعے بھی تمہارا امتحان لیں گے اور خوشخبری ہے حق پرجمے رہنے والوں کے لئے۔‘‘(البقرہ:آیت ۱۵۵)کلام پاک کی اس آیت میں یہ بات واضح کردی گئی کہ اہل حق پر مختلف قسم کے حالات ،اورطرح طرح کے آلام و مصائب آئیں گے ،ان کے ایمان و یقین کی جانچ کی جائے گی اور حوادث و مشاکل کی کسوٹی پر انہیں پرکھا جائے گا ۔یہ حالات حق کی دعوت لے کر اٹھنے والے افراد پر بھی آئیں گے اور جو جماعتیں اورتنظیمیں سچائی کو پھیلانے بڑھانے اور فروغ دینے کے لئے قائم ہوں گی انہیں بھی اس مرحلے سے گذرنا ہوگایہی وجہ ہے کہ گزشتہ دوہفتوں سےاھلِ فلسطین کو سخت ترین دشواریوں کا سامناہےاورسرائیل کی ظالم حکومت غزہ کےنہتےمردوں٬عورتوں اورمعصوم بچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔اورایسےایسےمظالم ان مظلوم مسلمانوں پرکیےجارہےہیں جس کی تفصیل ہر باغیرت مسلمان کے لئے سخت اذیت ناک اور رنج پہنچانے والی ہے ۔یہ فلسطین کے غیور مسلمانوں کی ہمت اور حوصلہ ہے کہ ہر ظلم کا استقبال وہ مسکرا کررہےہیں٬ان کی ہمت ہےکہ وہ ایسےنامساعدحالات میں نہ خوفزدہ ہوئے اور نہ پست ہمت،انہوں نے ہر مرحلے میں استقامت اور خدا کی مرضی پر راضی رہنے کی نادر مثال قائم کی،قرآن مجید کی یہ آیت ان کے حسبِ حال ہے ’’اللہ کے بہت سے نبی ایسے گزرے ہیں جن کی معیت میں بہت سے اللہ والوں نے لڑائی لڑی ،پھر اللہ کے راستے میں ان پر جو مصیبتیں آئیں ان سے نہ وہ پست ہمت ہوئے نہ انہوں نے کمزوری دکھائی،اور نہ باطل کے آگے جھکے اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کو ہی پسند فرماتاہے ۔‘‘ (البقرہ،آیت:۲۴۹)یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کوئی آج کی بات نہیں ہے،فلسطینی مسلمانوں پرماضی میں بھی جو مظالم ڈھائے گئے وہ ایک الگ ظلم و ستم کی داستان ہے ۔

ماضی میں اھل فلسطین پر جو کچھ ظلم و ستم کیا گیااوراب جومظالم کےپہاڑان پرتوڑےجارہےہیں اس کےپیش نظریہ سوال واجب ہےکہ حقوق انسانی  کی دہائی دینے والی تنظیمیں کہاں چلی گئیں؟اور انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر سے ہمدردی بٹورنے والے نہ جانے کن غاروں میں چھپ گئے اور کن عافیت گاہوں میں دبکے پڑے ہیں؟کیافلسطین میں کیا جانے والا ظلم٬ظلم نہیں؟دنیا کے مسلم ممالک کے حکمراں بھی بیان اورقراردادسےآگےنہیں بڑھ رہےہیں اورصورتحال دن بدن نازک ہوتی جارہی ہے۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھنےکی ہےکہ عقیدے کی پختگی اور جذبے کی درستگی دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان میں غیر معمولی جرات و ہمت اور مشکل ترین آلام و مصائب جھیلنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں اور جب راہ حق پر ہونے کا احساس دل میں جم جاتا ہے تو پھر گوشت پوست کا بنا ہوا انسان کسی ناقابل تسخیر پہاڑ کی طرح سخت اور مستحکم ہوجاتا ہے۔ غزہ کے مردوں عورتوں میں جو عزم محکم اور راہ حق میں مصیبتوں پر صبر و تحمل کا جو جوہر ہے وہ بے مثال بھی ہے قابل تقلید بھی! سلام ہو ان بھائیوں اور بہنوں پر جن کی آنکھوں میں حیاء،دل میں ایمان و یقین اور پیشانیوں پرسجدہ کا نشان ہے،جو دنیا کی عیش و عشرت اور لذت و عافیت کو چھوڑ کر خداتعالیٰ کے لئے غم و الم اور رنج و صدمہ جھیلنے کے لئے تیار ہیں٬جنہوں نے اپنےعزیزوں کی شہادت کا اعلان مسکرا کر سنا اور اس نازک مرحلے میں بھی صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اسی صبرو استقامت کاایک چھوٹاسانمونہ ہےکہ ایک فلسطینی بہن اپنےشہیدشوہرکی لاش پرکھڑی ہوکرکہتی ہیں کہ”مجھے بس مصطفیٰ سے یہی گلہ ہے تم نے شہادت پانے میں جلدی کی اور مجھے ہرا دیا٬لیکن اللّٰهﷻ کی قسم میں تمہارے چاروں بیٹوں کو جہاد کے لئے تیار کرونگی اور سارے بچے اللّٰهﷻ کی راہ میں قربان،مسجد اقصیٰ پر قربان جب تک ہمارا رب اللّٰهﷻہم سے راضی نہ ہو جائے” ﷲاکبر! سلام ہو ان پر جن کا عزم فولاد سے بھی زیادہ مستحکم ہے٬۔یہ وہی ہیں جن کا صبر ،جن کی استقامت،جن کی بلند ہمتی اور راہ حق پر جمے رہنے کی صفت حریفوں اور دشمنوں کو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ؂

سرفروشی کی تمنااب ہمارےدل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

 تحریر: شیخِ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ)