ذہن سازی کیلئے بی جے پی کی مہم کا عملاً آغاز ، مسلم تنظیمیں بیان بازی تک محدود

   

لڑکیوں کی شادی کی حد عمر کا معاملہ
ذہن سازی کیلئے بی جے پی کی مہم کا عملاً آغاز ، مسلم تنظیمیں بیان بازی تک محدود
نامپلی گرلز کالج میں حکومت کے فیصلہ کی تائید میں وزیراعظم نریندر مودی کی تصویر کو دودھ سے نہلایا گیا
صورتحال مسلم قائدین و علماء کیلئے لمحہ فکر

محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔21ڈسمبر۔لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کے فیصلہ کے ساتھ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کئے جانے کے بعد جس طرح مہم شروع کی تھی اسی طرح کی مہم شروع کرچکی ہے اور اس مرتبہ لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بی جے پی قائدین کے نشانہ پر ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کے فیصلہ کا شہر حیدرآباد میں سیاسی استحصال کیا جا رہاہے اور بی جے پی کارکنوں کی جانب سے شعور بیداری مہم کے نام پر طالبات کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے جو کچھ کیا گیا ہے وہ مسلم لڑکیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اس اقدام کے خلاف مسلم تنظیموں ‘ ذمہ داروں اور قائدین کی جانب سے اب تک بیان بازی ہی کی جار ہی ہے جبکہ شہر حیدرآباد کے سرکردہ نامپلی گرلز جونیئرو ڈگری کالج کے احاطہ میں پروگرام منعقد کرتے ہوئے برقعہ پوش لڑکیوں کی موجودگی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کو دودھ سے نہلایا گیا اور حکومت کے فیصلہ کی ستائش کروائی جا رہی ہے۔تعلیمی ادارو ںکو ذہن سازی کے مراکز تصور کیا جاتا ہے اور ان ذہن سازی کے مراکز کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے مرکزی حکومت کے فیصلہ کو درست قرار دینے کے لئے مہم شروع کردی ہے اور لڑکیوں کو یہ باورکیا جا رہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے لڑکیوں کی شادی کی عمر کو 18 سے بڑھا کر21کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ ان کے مفاد میں ہے اور ان کی ترقی کی راہیں ہموار کرنے والا ثابت ہوگا۔ ذرائع کے مطابق نامپلی گرلز جونیئر و ڈگری کالج کے احاطہ میں کالج انتظامیہ کی جانب سے منعقد کئے گئے اس پروگرام میں مقامی بی جے پی کارپوریٹر کو مدعو کیا گیا اور ان کی موجودگی میں انتظامیہ نے مرکزی حکومت کے فیصلہ کی ستائش کرتے ہوئے لڑکیوں کو ان کے حقوق سے آگہی کے نام پر مسئلہ کو اس انداز میں پیش کیا جا رہاہے کہ مودی حکومت نے لڑکیوں کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا رہاہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ‘ مسلم علماء و سیاسی قائدین کے لئے یہ بات لمحۂ فکر ہے ‘ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جب شہر حیدرآباد میں یہ سرگرمیاں ہیں تودیگر علاقوں کی صورتحال کیا ہوگی!م