راجستھان بحران اور کانگریس

   

ہم نے گلزاروں میں بھی دیکھی ہے خاک اُڑتی ہوئی
ایک ہی جانب نہیں رہتا بیابانوں کا رُخ
راجستھان بحران اور کانگریس
راجستھان میں کانگریس کا بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ اس میں ہر روز ایک نیا تماشہ ہوتا جا رہا ہے ۔ چیف منسٹر اشوک گہلوٹ نے آج گورنر کی قیامگاہ پر دھرنا دیتے ہوئے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرسکیں۔ انہوں نے 102 ارکان اسمبلی کی فہرست گورنر کو پیش کرنے کے بعد اپنا دھرنا ختم کیا ۔ اشوک گہلوٹ کا ادعا ہے کہ یہ ارکان اسمبلی ان کی حکومت کی تائید کرتے ہیں ۔ انہوں نے گورنر سے اصرار کیا کہ اسمبلی اجلاس طلب کیا جائے جہاں وہ اپنی اکثریت ثابت کرسکیں گے ۔ گذشتہ دنوں کے دوران یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اشوک گہلوٹ ریاستی اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرسکتے ہیں اور انہیں پورا یقین ہے کہ وہ فلور ٹسٹ میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ریاست میں اسمبلی اجلاس کی طلبی اور ایوان میں اکثریت ثابت کئے جانے کا مطالبہ نہیں کر رہی ہے ۔ بصورت دیگر جہاں جہاں کانگریس میں پھوٹ ہوئی یا انحراف ہوا کانگریس نے فوری اسمبلی اجلاس منعقد کرنے اور ایوان میں عددی طاقت ثابت کرنے کیلئے اصرار کیا تھا ۔ اشوک گہلوٹ اس معاملے میں بی جے پی کو روکنے اور عملا اسے مات دینے میںابھی تک تو کامیاب رہے ہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحران کے مزید سنگین ہوجانے اور ارکان اسمبلی کی تائید ختم ہونے سے قبل ایوان میں ایک بار اپنی عددی طاقت ثابت کر دکھائیں تاکہ آئندہ چھ ماہ تک ان کی حکومت کیلئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ گورنر بھی کوئی الگ منصوبہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ابھی تک بھی چیف منسٹر کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ دوسری طرف سچن پائلٹ بھی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے اپنے لئے راحت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پائلٹ کیمپ میں پھرتی نظر آنے لگی ہے اور وہ عددی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے چھ ماہ کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ کانگریس پارٹی اس سارے معاملے میں بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے ۔
راجستھان میں پارٹی کیلئے جو بحران پیدا ہوا ہے وہ پارٹی اور تنظیم کے استحکام کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ پارٹی پہلے ہی مدھیہ پردیش میں اقتدار کھوچکی ہے ۔ کرناٹک میں بھی اس کی اتحادی حکومت بی جے پی کی سیاست کا شکار ہوگئی ہے ۔ اب راجستھان کے حالات بھی کانگریس کے حق میں بہتر نہیں کئے جاسکتے ۔ حالانکہ راجستھان بظاہر فوری طور پر اشوک گہلوٹ حکومت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا لیکن جو حالات ہیں وہ پارٹی کیلئے کسی بھی قیمت پر اچھے نہیں کہے جاسکتے ۔ ایک رائے یہ ظاہر کی جا رہی ہے کہ کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو اس معاملے میں خاموشی توڑنے کی ضرورت ہے ۔سارے حالات پر کھل کر تبصرہ کرنے اور اس بحران کی یکسوئی کا ذمہ اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف یہ بحران حل ہوجائے بلکہ مستقبل میں بھی کوئی خطرہ باقی نہ رہے ۔ علاوہ ازیں راہول گاندھی کو چاہئے کہ وہ لوک سبھا انتخابات کی شکست کو فراموش کرتے ہوئے ایک نئی پہل کریں۔ پارٹی کی قیادت دوبارہ سنبھال لیں اور ایک بار پھر حکومت کے خلاف نہ صرف خود عملی طور پر سرگرم ہوجائیں بلکہ پارٹی کو بھی متحرک کردیا جائے ۔ فی الحال سارے ملک میں جو حالات ہیں ان میں اپوزیشن جماعتوں اور خاص طور پر کانگریس کیلئے اپنی جگہ بنانے کا ایک بہترین موقع دستیاب ہے ۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کانگریس پارٹی اپنے وجود کا احساس دلاسکتی ہے ۔
راجستھان کے بحران میں پارٹی نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ پارٹی کی مجبوریوں کی وجہ سے ہوسکتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی وسیع پس منظر میں یہ بہتر دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کیلئے پارٹی کو ایک نئے جذبہ اور عزم و حوصلے کے ساتھ حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ سابقہ شکست یا نامساعد حالات کو اگر عذر کے طور پر پیش کیا جاتا رہا تو از خود تو پارٹی کے حالات سدھرنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی اسے کسی چمتکار کی توقع رکھنی چاہئے ۔ اسے نئے سرے سے شروعات کرتے ہوئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج بے شمار مسائل ایسے ہیں جن پر پارٹی عوام کے درمیان آسکتی ہے اور حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرسکتی ہے لیکن اس کیلئے اولین شرط یہی ہے کہ اس کی اپنی صفوں میں اتحاد ہو اور استحکام ہے ۔ اس اتحاد اور استحکام کی سب سے پہلے ضرورت راجستھان میں ہے اور یہ بحران حل کیا جانا چاہئے ۔