راجستھان بحران ‘ کانگریس پر اثر

   

اب ضبطِ غم سے خونِ جگر خشک ہوگیا
ہوتے ہیں میرے اشک رواں کم بہت ہی کم
راجستھان بحران ‘ کانگریس پر اثر
راجستھان میں کانگریس پارٹی میں جو بحران چل رہا ہے اس کی طوالت نے ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی پر منفی اثرات مرتب کرنے شروع کردئے ہیں۔ سب سے زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ کانگریس قائدین اب اپنے طور پر مختلف موضوعات پر ایسے تبصرے کرنے لگے ہیں جن کے نتیجہ میںپارٹی کی شبیہہ عوام میں متاثر ہونے لگی ہے۔ راجستھان کا بحران بجائے خود پارٹی کیلئے ایک اچھی علامت نہیں ہے کیونکہ گذشتہ چند مہینوں میں کانگریس پارٹی ملک کی دو ریاستوں میں اپنے اقتدار سے محروم ہوگئی ہے ۔ پہلے تو کرناٹک میں جے ڈی ایس کے ساتھ اتحادی حکومت زوال کاشکار ہوئی اور پھر مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کی حکومت کو بی جے پی نے زوال کا شکار کرکے خود اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ اب راجستھان میں بھی صورتحال کانگریس کیلئے اچھی نہیں ہے اور بی جے پی حالانکہ یہاں ابھی تک بظاہر حکومت تشکیل دینے کے موقف میں نظر نہیںآئی ہے لیکن کانگریس کیلئے راجستھان کا بحران بحیثیت مجموعی ساری پارٹی پر اثر انداز ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ کانگریس میںصدارتی عہدہ پر راہول گاندھی کی واپسی کے تعلق سے گذشتہ کچھ وقتوں سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ کچھ قائدین کا یہ احساس ہے کہ راہول گاندھی کو اس عہدہ پر واپسی کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ سونیا گاندھی زیادہ وقت تنظیم کو دینے کے موقف میں نہیں رہی ہیں۔ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے ۔ پارٹی ایک طرح سے بے سمت ہوتی جا رہی ہے ۔ اس صورت میں جو مطالبات ہو رہے ہیں وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں ۔ تاہم اس مطالبہ کی آڑ میں کچھ قائدین ایک دوسرے کے تعلق سے ریمارکس بھی کرنے لگے ہیں اور یہ ریمارکس جہاں چند قائدین کے آپسی اختلافات کو اجاگر کر رہے ہیں وہیں یہ پارٹی پر اچھا اثر نہیں ڈالیں گے ۔ ان سے پارٹی کی پہلے ہی سے مشکلات کا شکار صورتحال میں اور بھی پریشانیاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ کچھ قائدین جو ریمارکس کر رہے ہیں ان کو قابو میں کرنے والی کوئی اتھاریٹی فی الحال کانگریس پارٹی میں دکھائی نہیں دے رہی ہے اور یہی صورتحال پارٹی کے حق میں کسی بھی قیمت پر بہتر نہیں ہوسکتی ۔
جہاں تک پارٹی کی داخلی صورتحال ہے وہ جب تک ٹھیک نہیں ہوگی اس وقت تک بیرونی صورتحال کی بہتری ممکن نظر نہیں آتی ۔ پارٹی کی صدارت کے مسئلہ کے ساتھ ساتھ ذمہ دار قائدین کو زیادہ سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کو اب تنظیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہر مسئلہ پر گرفت بنانے کی ضرورت ہے ۔بہتر مشیروں کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام سے رابطوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور عوامی گراف کو بڑھانے پر خاص طور پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ مختلف ریاستوں میں جہاں کانگریس کی حالت کچھ ٹھیک نہیں ہے اسے ٹھیک کرنے کی حکمت عملی بنائی جانی چاہئے ۔ محض حالات کے دھارے پر اگر پارٹی کو چھوڑ دیا جائے اور کسی کرشمہ کی امید رکھی جائے تو یہ ہندوستانی سیاست میںفضول ہی ہوگا ۔ جن ریاستوں میں کانگریس کا موقف مستحکم ہے وہاں پارٹی اور تنظیم کو زیادہ موثر ڈھنگ سے عوام میں پیش کرنے اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کو مصلحت کی سیاست ترک کرتے ہوئے پوری طرح سے پارٹی میں نئی جان ڈالنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے پر بطور خاص توجہ دینی چاہئے ۔ ریاستی قائدین سے زیادہ رابطے رکھے جانے چاہئیں۔ کسی ایک گروپ کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے تما قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ان کو پارٹی کے استحکام کیلئے سرگرم کرنے کی حکمت عملی بنائی جانی چاہئے ۔
حالانکہ آج کا دورہ سوشیل میڈیا اورٹکنالوجی کا دور ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان کی سیاست عوام پر انحصار کرتی ہے ۔ جب تک سینئر اور ذمہ دار قائدین عوام میںزیادہ وقت نہیں دینگے اور عوام سے خود کو جوڑنے پر توجہ نہیںدینگے اس وقت تک سیاسی کامیابیوں کی امید رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ یہ درست ہے کہ آج کے دور میںسوشیل میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف اسی پر اکتفاء ناکافی ہوگا ۔ عوام تک پہونچنا ہر سیاسی لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بغیر مقاصد کی تکمیل ممکن ہیںہے ۔ بحیثیت مجموعی راجستھان بحران کا پارٹی پر بھی اثر ہونے لگا ہے اور اس اثر کو ختم کرنے اور پارٹی میں نئی جان ڈالنے کیلئے قیادت کو کمر کس لینا ہوگا ۔