رافیل پر آنکھ مچولی

   

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
رافیل پر آنکھ مچولی
رافیل جیٹ طیاروں کا سودا ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کا تعاقب کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ اس معاملت نے مودی حکومت کو ‘ جو اکثر دوسروں کو نشانہ بنانے کے معاملہ میں سب سے آگے رہتی ہے اور ملک کی تقریبا سبھی جماعتوں کو کرپشن کا ذمہ دار قرار دیتی ہے ‘ شائد پہلی بار عوامی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے ۔ حالانکہ حکومت ‘ اس کے وزراا ور خود وزیر اعظم نریندر مودی اور برسر اقتدار جماعت کے سربراہ امیت شاہ اس کٹہرے میں کھڑے ہونے سے حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں لیکن عوامی حلقوں میں یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ مودی حکومت کے ہاتھ بھی صاف نہیں رہے ہیں ۔ رافیل معاملت میںکچھ تو ایسی گڑبڑ ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں اور خاص طور پر کانگریس صدر راہول گاندھی اتنی شدت کے ساتھ حکومت کو نشانہ بنانے میں جٹے ہوئے ہیں ۔ یہ کہاوت مشہور ہے کہ جہاںآگ ہوتی ہیں دھواں وہیں سے اٹھتا ہے ۔ جب تک کچھ غلط نہ ہوا ہو اپوزیشن کو حکومت کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ نہیں آتا ۔ اس کے علاوہ حکومت اور بر سر اقتدار جماعت کا جو دفاعی موقف ہے اس سے بھی شکوک و شبہات کو تقویت ہی ملتی ہے ۔ جس طرح سے حکومت جے پی سی کے ذریعہ اس معاملت کی تحقیقات کرنے سے گریز کر رہی ہے اور پارلیمنٹ میں مباحث کے نام پر جس طرح کی آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے اس سے بھی ایسا تاثر تقویت پاتا جا رہا ہے کہ حکومت اس معاملہ میں صاف نہیں ہے ۔ اس نے ایسا کچھ غلط ضرور کیا ہے جس کی وجہ سے اسے دفاعی موقف اختیار کرنا پڑ رہا ہے یا پھر تحقیقات سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس معاملت میں نت نئے پہلو سامنے آتے جا رہے ہیں۔ حکومت اس مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا سہارا لے رہی ہے لیکن جس انداز سے حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنا موقف پیش کیا اسی انداز سے فیصلہ سنایا گیا ہے ۔ سارے معاملہ کی سچائی کو عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا تو پھر اس میں تحقیقات کی گنجائش ضـرور بچتی ہے ۔ حکومت کی ساری کوشش یہی ہے کہ تحقیقات ہی سے بچا جاسکے تاکہ تمام حقائق عوام کے سامنے آنے نہ پائیں۔
اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چیف منسٹر گوا منوہر پریکر اس سارے معاملہ میں اہم راز اپنے سینے میں رکھتے ہیں اورا سی وجہ سے انہیں شدید علالت اور فریش ہونے کے باوجود گوا میں قیادت کو تبدیل نہیں کیا جا رہا ہے ۔ گوا میں بی جے پی واحد بڑی جماعت بھی نہیں ہے اور صرف حلیف جماعتوں کی تائید سے وہاں اس کی حکومت ٹکی ہوئی ہے ۔ حلیف جماعتیں بھی دھیرے دھیرے مطالبہ کررہی ہیں کہ وہاں قیادت کو تبدیل کیا جائے کیونکہ چیف منسٹر کی علالت کی وجہ سے سرکاری کام کاج ٹھپ ہوتا جا رہا ہے اور ترقیاتی کاموں کی رفتار انتہائی سست ہوگئی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ منوہر پریکر ملک کے وزیر دفاع تھے اور ان کے دور میں ان ساری معاملتوں کو قطعیت دینے کا عمل ہوا ہے ۔ اس طرح وہ اس ساری معاملت کی تفصیلات سے اور اس میں وقفہ وقفہ سے ہونے والی تبدیلیوںسے واقف ضرور ہوسکتے ہیں۔ اب جو الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ منوہر پریکر انہیں رازوں کی حفاظت کرتے ہوئے بی جے پی قیادت کو بلیک میل کر رہے ہیں کہ انہیں چیف منسٹر کے عہدہ سے بیدخل نہ کیا جائے ۔ ایک طویل علالت اور تقریبا فریش رہنے کے باوجود انہیں اس عہدہ سے ہٹانے سے گریز کرنا مشکوک ہی ہے اور یہ بات قابل غور ضرور معلوم ہوتی ہے کہ شائد پریکر کے پاس کچھ راز موجود ہوں ۔
جہاں تک رافیل جیٹ طیاروں کی قیمت کا سوال ہے یہ تو کھلی حقیقت ہے کہ یو پی اے دور میں اس کی قیمت بہت کم تھی اور این ڈی اے حکومت نے اسی طیارہ کی قیمت تین گنا زیادہ کرتے ہوئے کم تعداد میں طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ ایسے پہلو ہیں جن کی وضاحت حکومت کو بالکل سچائی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان ایروناٹیکل لمیٹیڈ کو اس میں آف شور پارٹنر رکھنے کی بجائے ایک خانگی اور بالکل چند دن قبل قائم کردہ کمپنی کو اس کی ذمہ داری دینا بھی مشکوک ہے ۔ یہ سارے عمل ایسے ہیں جن کی جے پی سی کے ذریعہ تحقیقات ہی حقائق کو منظر عام پر لاسکتی ہے لیکن حکومت اس طرح کی تحقیقات کا حکم دینے کی بجائے آنکھ مچولی میں مصروف ہے ۔ کبھی کوئی راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو کبھی کوئی راستہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت حقائق کے انکشاف سے خوفزدہ ہے ۔