راہول ، مشن اور پیام

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
میں جانتا ہوں کہ لوگ بڑی ہی مشکل سے اس بات میں یقین کرتے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر بناء کسی غرض، بناء کسی مقصد کے کوئی یاترا شروع کرتا ہے۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں جہاں کسی لیڈر نے چاہے وہ مذہبی لیڈر ہو یا سیاسی رہنما یا پھر سماجی مصلح نے ایک مقصد کے تحت یاترانکالی مثلاً آدی شنکر آچاریہ (700 عیسوی میں یاترا نکالی جس کا مقصد مذہبی تشخص یا شناخت کا تحفظ تھا)۔ اگرچہ انہوں نے اسے مذہبی یاترا قرار دینے سے گریز کیا تھا لیکن اکثر نے اس یاترا کو مذہبی مقصد کے تحت نکالی گئی یاترا قرار دیا۔ اسی طرح ہمارے سامنے ماؤ زیڈانگ (1934-35ء) ملٹری مارچ)، مہاتما گاندھی (1930ء سیول نافرمانی کی تحریک) اور مارٹن لوتھر کنگ (1953ء شہری حقوق کی تحریک) جیسی بے شمار مثالیں ہیں جو کسی نہ کسی مقصد اور غرض سے نکالی گئی یا شروع کی گئی جب آپ اتوار کو یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے یعنی اتوار 29 جنوری 2023ء کو گاندھی خاندان کے چشم و چراغ اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی اپنی بھارت جوڑو یاترا اختتام کو پہنچائیں گے۔ اس طرح وہ 135 دنوں میں تقریباً 4 ہزار کلومیٹر کا فیصلہ طئے کریں گے۔ کسی کی سیاسی ترجیح کچھ بھی ہو یا اگر یاترا سیاسی بھی نہ ہو، کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ یاترا دراصل اس کے نکالنے والے کے عزائم اور خواہشات کا مظاہرہ ہے۔
آخر بی جے پی کیوں پریشان اور چوکس ہے؟
مسٹر راہول گاندھی نے بار بار یہی کہا ہے کہ ان کی یاترا کے کوئی سیاسی اور انتخابی اغراض و مقاصد نہیں ہیں بلکہ ان کی بھارت جوڑو یاترا کا واحد مقصد ہندوستانیوں میں پیار و محبت، اخوت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کا پیام پھیلانا ہے، اسی لئے اسے کسی بھی طرح ’’سیاسی اور انتخابی مقصد کے تحت نکالی گئی یاترا نہیں کہا جاسکتا۔ ایک بات ضرور ہے کہ راہول گاندھی کے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ ان کی یاترا کا مقصد سیاسی و انتخابی نہیں ہے، بی جے پی اور کانگریس کے ناقدین اس بارے میں کافی متفکر ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جے پی یاترا کو نامعقول دلائل کے ذریعہ تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کے دلائل میں معقولیت کا کوئی عنصر نہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر صحت نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ راہول گاندھی کی یاترا سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ ہے، اس لئے انہیں (راہول گاندھی) کو اپنی یاترا روک دینی چاہئے لیکن انہوں نے اپنی یاترا کو روکا نہیں بلکہ پورے جوش و خروش کے ساتھ بھارت جوڑو یاترا کو جاری رکھا جس میں تمام شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے شرکت کررہے ہیں جن میں سابق فوجی سربراہوں سے لے کر ماہرین تعلیم، ادیب و صحافی، کسان و فنکار اور سماجی جہدکار سب کے سب شامل ہیں۔ راہول گاندھی نے بی جے پی قائدین کی مسلسل تنقیدوں کی پرواہ کئے بناء عوام تک اپنی رسائی کو یقینی بنایا۔ خاص طور پر نوجوان، خواتین، بچے، کسان، مزدور اور حاشیہ پر موجود کمزور طبقات تک وہ رسائی حاصل کررہے ہیں اور خود (راہول گاندھی) تک ان کی رسائی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ راہول گاندھی نے مودی حکومت کی 8 سالہ کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہی کہا ہے کہ ملک میں غربت اور بیروزگاری کا دور دورہ ہے اور عوام کا ہر طبقہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے، ساتھ ہی معاشرہ میں نفرت پھیلانے والے عناصر بھی ہیں۔ نتیجہ میں ہندوستانی معاشرہ اس قدر تقسیم ہوگیا ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ پرست عناصر نے عوام کو مذہبی خطوط پر خطرناک حد تک تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ راہول گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران جلسوں میں اس خطرناک تقسیم پر برہمی کا اظہار کیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ راہول گاندھی کو یاترا کے دوران جس طرح کا حوصلہ افزاء ردعمل حاصل رہا، بی جے پی کو اس سے کیوں پریشانی لاحق ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد ہی یقین ہوتا ہے۔ میں خود کنیا کماری ، میسورو اور دہلی میں راہول گاندھی کی یاترا میں شامل رہا۔ ان کے قدم سے قدم ملاکر چلا، میں نے ہر مقام پر بہت بڑا مجمع دیکھا۔ ہر ریاست اور ہر مقام پر یہی حال تھا۔ میں نے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کی تصاویر اور ویڈیوز کا مشاہدہ بھی کیا۔ یاترا میں شامل ہونے کیلئے کسی کو بسیں فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی کسی کو یاترا میں شامل ہونے رقومات ادا کی گئیں۔ یہاں تک کہ کسی سے غذائی پیاکٹس دینے کے وعدے بھی نہیں کئے گئے ۔ اس کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے راہول گاندھی کی یاترا میں شامل ہوکر ان کے ساتھ کئی کیلومیٹرس تک پیدل چلنے کو اعزاز سمجھا۔ درمیانی عمر کے مردوں اور بوڑھے، بچوں اور خواتین کی کثیر تعداد بھی راہول گاندھی کی یاترا کے دوران سڑکوں کے دونوں جانب کھڑی رہی جو راہول کی جانب اپنے ہاتھ لہراکر اُن پر پھول نچھاور کرتے ہوئے تالیاں بجاکر ان کا خیرمقدم کررہی تھی۔ ان کا والہانہ استقبال کررہی تھی۔ تقریباً ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون تھا اور ان لوگوں نے تصاویر بھی لی۔فنکار، ادیب، صحافی، سیاسی شخصیتیں، معذورین وغیرہ یاترا کی شان میں اضافہ کا باعث بن رہے تھے۔ وہ دراصل عوام کو ایک خاموش پیغام دے رہے تھے کہ انہوں نے راہول گاندھی کا یہ پیام سنا ہے کہ ہندوستان کو نفرت اور تشدد سے آلودہ کردیا گیا ہے اور پیار و محبت، اخوت و بھائی چارگی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو جلا بخشنے والے سماجی اثر کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے۔
یاترا میں غریبوں کی موجودگی
راہول گاندھی کی یاترا میں ہزاروں کی تعداد میں غریب عوام نے شرکت کی۔ وہ جہاں بھی گئے، غریب عوام ان کی ایک جھلک دیکھنے اور بیروزگاری، بھوک مری جیسے مسائل سے انہیں واقف کروانے اُمڈ پڑی۔ میں نے خود دیکھا کہ ہم جہاں بھی گئے، ہر طرف غریبوں کی کثیر تعداد تھی ، ہم نے ان کی غربت کی شدت کو دیکھا اور اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ملک میں غریبوں کی آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غربت کی سب سے بڑی اور اہم وجہ بیروزگاری ہے۔
گلوبل ملٹی ڈائمنشنل پاورٹی انڈکس 2022 (GMPT) کے مطابق ہندوستان میں آبادی کے لحاظ سے غریبوں کا تناسب 16% ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ 22.4 کروڑ لوگ انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مابقی عوام دولت مند ہیں۔ شہری علاقوں میں غربت کا BAR فی ماہ 1286 اور دیہی علاقوں میں 1089 فی ماہ ہے جبکہ ڈسمبر میں بیروزگاری کی شرح 8.3% درج کی گئی۔ مجھے یقین ہے کہ راہول گاندھی کا والہانہ استقبال کرنے کیلئے جمع لاکھوں لوگوں میں ایسے ہزاروں لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی یا غیرکانگریس پارٹی کے حق میں ووٹ دیا ہوگا۔ اب راہول کی یاترا نے ان کی آنکھوں میں اُمید کی ایک چمک پیدا کی۔ دوسری طرف یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بی جے پی کو پیار و محبت اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پھیلانے کا آئیڈیا کیوں پسند نہیں ہے، جبکہ وہ (بی جے پی) ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ کی بات کرتی ہے۔ بی جے پی نے ایک منصوبہ بند انداز میں مسلمانوں اور عیسائیوں و دیگر اقلیتوں کو سسٹم سے ہی نکال دینے کی کوشش کی جس کی مثال یہ ہے کہ مرکزی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں۔ اس کے 303 ارکان لوک سبھا اور 92 ارکان راجیہ سبھا میں بھی کوئی مسلم شامل نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے واحد مسلم جج 5 جنوری کو وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوچکے ہیں۔