راہول کے استعفیٰ کی پیشکش خودکشی ہوگی۔ لالو پرساد یادو

,

   

آر جے ڈی سربراہ نے کہاکہ اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ نشانہ بی جے پی کو ناکام بناناتھا مگر وہ اس کو قومی سونچ بنانے میں ناکام رہے

راہول گاندھی کا کانگریس صدرات سے استعفیٰ نہ صرف ان کی پارٹی کی خودکشی ہوگا بلکہ ان تمام سماجی او رسیاسی طاقتوں کے لئے بھی نقصاندہ ثابت ہوگا جو سنگھ پریوار کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔یہ بی جے پی کی جال میں پھنسنے کے مترادف ہوگا۔

راہول گاندھی کے بجائے اگر کوئی گاندھی نہرو خاندان سے ہٹ کر ہوگا تو اس لمحے مذکورہ نریندر مودی او رامیت شاہ کی فوج اس نئے لیڈر کو ”پالتو“ کی حیثیت سے پیش کریں گے‘ او رکہیں گے اس کا ریموٹ کنٹرول راہول‘ سونیا کے ہاتھوں میں ہے۔

اور اگلے عام الیکشن تک یہ کھیل کھیلا جائے گا۔ توپھر کیو ں راہول گاندھی اپنے سیاسی دشمنوں کو یہ موقع فراہم کررہے ہیں؟یہ حقیقت ہے کہ مودی کی زیر قیادت بی جے پی کے مقابلہ اپوزیشن کو اس الیکشن میں شکست ہوئی ہے۔

وہ تمام اپوزیشن جماعتیں جو فرقہ پرست اور فاشسٹ تنظیم کو شکست فاش کرنے کیلئے مصروف تھے ان تمام کو اپنی مشترکہ ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور کہاں پر غلطیاں پیش ائی ہیں ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

شکست کی وجہہ تلاش کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ مذکورہ اپوزیشن جماعتوں کاایک ہی مقصد ہی بی جے پی کو شکست دینے مگر وہ قومی رحجان تیار کرنے میں ناکام رہے۔

شمالی‘ ایسٹرن‘ ویسٹرن ہندوستان میں ان لوگوں میں ریاستی الیکشن کی طرح اس کا سخت مقابلہ کیا۔ وہ اپنی حکمت عملی اور کارائیو ں کو روبعمل لانے میں ناکام رہے۔

لوگوں قومی متبادل کی طرف دیکھ رہے تھے جس اپوزیشن ہے جو اپنی ریاستوں میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ مقابلے کرے مگر اس کو پورا کرنے میں وہ ناکام رہے۔

ہر الیکشن کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے۔ اس الیکشن میں بی جے پی کے پاس غیر متنازع لیڈر کے طور پر مودی تھا۔

مگر اپوزیشن کے پاس ایک دولہا اور ان کے براتی کے طور پر ایک لیڈر کے انتخاب کی رائے میں ناکامی رہی۔

سال2015میں ہم نہیں چاہتے تھے کہ نتیش کمار چیف منسٹر بنے مگر ہمارے پریوار کے ملائم سنگھ یادو نے نتیش کمار کو چیف منسٹر امیدوار کے طور پر پیش کیاہم نے اس کو تسلیم کیا۔

کانگریس کا منشور بی جے پی کے منشور سے کئی گناہ بہتر ہے جس میں نوٹ بندی سے بڑھنے والی بے روزگاری‘ بحران‘ کسانوں کے بحران‘ اقتصادی نقصان کے لئے موثر انداز میں کام کرنے کا وعدہ کیاگیاتھا۔

یہ لڑائی مودی بنام ممتا یا مایاوتی بنام مودی یا پھر مودی بمقابلہ اکھیلیش یا مودی بمقابلہ تیجسوی یادو نہیں بلکہ یہ مقابلہ فسطائیت اور سکیولر زم کے درمیان کی ہے