رشتوں میں خلوص ، محبت باقی نہیں رہی

   

سید شمس الدین مغربی
اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیھما السلام کے ذریعہ ایک رشتےکی شروعات کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے کیا حقوق ہے بتلائے ۔ بیوی کاشوہر کے ساتھ ، ماں باپ کا اولاد کے ساتھ ، بھائی اور بہنوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ، خالہ کا بھانجی کے ساتھ دادا دادی ،نانا نانی کا وغیرہ ۔ یہ سب رشتے ایک دوسرے سے جڑتے ہوئے ایک زنجیر کی شکل اختیار کرگئی ۔ رشتے جسم میں روح کی طرح ہوتے ہیں جو احساس کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں ۔ یہ ڈور اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ہر آنے والے رشتے کو اپنے اندر پرولیتی ہے۔ ساتھ ہی اتنی کمزور ہوتی ہے کہ جب ٹوٹتی ہے تو سارے رشتوں سمیت بکھر جاتی ہے ۔ہماری زندگی میں رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو قدرت کی طرف سے ہمیں بنے بنائے ملتے ہیں جو مستقل اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ نعمت کی طرح ہوتے ہیں ، جب کہ دوسرے وہ رشتے ہیں جو انسان قائم کرتا ہے ۔ یہ رشتے ٹوٹ بھی سکتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ وقت کے ساتھ بچھڑ جاتے ہیں ۔ رشتوں کی اہمیت کو اگر سمجھا جائے تو ان کی حفاظت باغ میں لگے نازک پھولوں کی طرح کرنی پڑتی ہے کیونکہ ہماری زرا سی کوتاہی ان کو ٹہنی سے جدا کردیتی ہے ۔ رشتے خون کے ہوں یا مستقل ،خاردار جھاڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو سائے کے ساتھ ساتھ زخم بھی دیتے ہیں ۔ بناوٹی رشتے تو موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں ۔مگر خون کے رشتے کفن کیطرح اوڑھ لئے جاتے ہیں ۔ رشتوں کا توازن برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے نرمی ،جھکاؤ اور برداشت کا رویہ پیدا کریں ۔ اگر مزاج میں گرمی اور لہجے میں سختی ہو ، دماغ میں بڑائی اور دلوں میں حسد ، بغض اور کینہ ہو تو رشتوں کی نازک ڈور میں تناؤ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہی تناو دوریاں پیدا کرتا ہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا رشتہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کا ہوتا ہے جو کہ سب سے مضبوط رشتہ ہے مگر ان رشتوں کو نبھانے کیلئے بھی عمر بھر حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے ۔ ماں باپ کی فرمانبرداری ان سے بے لوث محبت ، شفقت ، احساس اور بہن بھائیوں سے خلوص محبت ہی اس تعلق کو تا عمر مضبوط اور تواناں بناتا ہے ۔گلدستہ حیات میں سب سے خوبصورت پھول ازدواجی رشتے ہے جس سے بہت سے نئے رشتے وجود میں آتے ہیں اوریہ ہی ایسا رشتہ ہے جو بہت سے نئے رشتوں کو باندھ کر رکھتا ہے ۔مرد اور عورت کا یہ رشتہ انسانیت کی معراج بھی ہے ۔ یہ ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہے اگر توازن قائم رہے تو زندگی بوجھ نہیں لگتی اور اگر توازن بگڑ جائے تو زندگی اپنے ہی بوجھ سے مرجاتی ہے ۔ زندگی کے باقی سب رشتے اس تعلق سے بنتے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس تعلق کو نبھانے کیلئے صبر کا پانی دینا پڑتا ہے ، اگر فریقین کے مزاج میں برداشت کی صلاحیت ہوتو یہ تعلق بہت مضبوط بنتا ہے اور سدا قائم رہتا ہے ۔
ہم میںسے کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ، زندگی میں بہت سے کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں تب جاکر رشتے اور تعلق مضبوط ہوپاتے ہیں ۔ عورت کا احساس شکر گزاری اور مرد کا ظرف بھی گھر کو جنت یا دوزخ بناسکتا ہے ، رشتے محبت ، الفت ، احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات و احساسات کا خیال رکھنے سے اس قدر مضبوط ہوتے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی ۔ آج کے دور میں اگر رشتے ناتے اور تعلقات پائیدار نہیں وقتی گلنے لگتے ہیں تو اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں رشتوں کا تقدس اور احترام باقی نہیں رہا ۔ ہر شخص خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرنے لگا ہے اور صبر اور برداشت کمی بھی بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہے ۔ اب لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر اپنے آس پاس نظر دوڑائی جائے تو ہر گھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے ، ہر گھر میں پریشانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ، گھروں میں سکون اور تعلقات کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ رشتوں کے تقدس کا خیال رکھا جائے ۔ اگر گھر میں بڑے بزرگ ہیں یا بوڑھے ماں باپ ہیں تو ان کی عزت کی جائے ، ان کو وقت دیا جائے ۔ میاں اور بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھیں ۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگزر کریں ، تب ہی جاکے ہم سب کی زندگی کامیاب بن سکتی ہے ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کہنے سننے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( آمین )