روزگار ‘ غربت اور حکومت

   

دل تباہ کا عالم کسی کو کیا معلوم
تری نوازش پنہاں کی بات کون کرے
روزگار ‘ غربت اور حکومت
ملک کی معیشت میں جو گراوٹ آتی جا رہی ہے اس نے صورتحال کو سنگین کیا ہوا ہے تاہم روزگار کی مسلسل کمی اور بڑھتی ہوئی غربت کے اندیشوں نے معیشت کی صورتحال کو اور بھی تشویشناک کردیا ہے ۔ اقوام متحدہ نے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان کے مطابق ہندوستان کے حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں 40 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے پہونچ جائیں گے ۔ اس کامطلب یہی ہے کہ نہ صرف روزگار اور ملازمتیں محروم ہوئی ہیں بلکہ حکومت کی جانب سے کورونا وباء کے دور میں لاک ڈاون اور اس سے قبل کئے گئے فیصلوں کے نتیجہ میں خاص طورپر دیہی علاقوں کی معیشت بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے اور اس کے اثرات سے شہری علاقے بھی محفوظ نہیں رہیں گے ۔ صرف ایک مہینے میں پچاس لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوئے تھے اور یہ اس وقت کے حالات ہیں جب لاک ڈاون کی تحدیدات میںنرمی پیدا کردی گئی تھی اور معاشی سرگرمیوں کی اجازت دیدی گئی تھی ۔ دیہی علاقوں کی صورتحال آئندہ وقتوں میں مزید ابتر ہونے کے اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ شہری علاقوں میں بھی حالات ابتر ہی ہیں اور یہاں تجارت اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ حکومت کے جو اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق ملک کی جملہ گھریلو پیداوار منفی 23.9 تک گرگئی ہے ۔ جی ڈی پی کی شرح سے ملک کی معاشی صورتحال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ وقتوں میں جی ڈی پی کی شرح مزید گھٹ سکتی ہے اور اس کے اثرات سے ہر ہندوستانی شہری متاثر ہوسکتا ہے ۔ روزگار میں مسلسل کٹوتی کا سلسلہ مختلف شعبہ جات میں جاری ہے جس کے نتیجہ میں ملک میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ اندیشے اب تو اقوام متحدہ نے بھی ظاہر کئے ہیں کہ ہندوستان میں 40 کروڑ عوام خط غربت سے نیچے پہونچ سکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار انتہائی تشویشناک ہیں اورا س کے ازالہ کیلئے حکومت کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت اس معاملے میں بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اور اس نے لب کشائی سے بھی گریز کیا ہوا ہے ۔
سرکاری طور پر اعداد و شمار کے الٹ پھیر پر ہی انحصار کیا جا رہا ہے ۔ معیشت کی جو حقیقی صورتحال ہے اس کو عوام پر ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے ۔ وزیر فینانس نرملا سیتارامن کا کہنا ہے کہ معیشت پر کورونا وباء کی وجہ سے منفی اثر ہوا ہے ۔ انہیں اسے آسمانی مصیبت قرار دیا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ صرف کورونا وباء ہی ہندوستانی معیشت کی تباہی کیلئے ذمہ دار نہیں ہے ۔ اس کیلئے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے غیر منظم نفاذ کو بھی ذمہ دار تسلیم کیا جانا چاہئے ۔ حکومت کو اب تک کئے گئے اپنے اقدامات کا تفصیلی طور پر جائزہ لیتے ہوئے ایک تجزیہ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور اسے اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے کون سے ایسے اقدامات رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کے طور پر ابھرنے والے ہندوستان میں چالیس کروڑ عوام کس طرح خط غربت سے نیچے پہونچ جانے کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔ حکومت کو بینکنگ شعبہ کی صورتحال پر بھی تفصیلات عوام میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو غیر کارکرد اثاثہ جات بن گئے ہیں ان کے اعداد و شمار پیش کرنا چاہئے ۔ جن کارپوریٹ گھرانوں نے ہزاروں کروڑ روپئے کے قرض لیتے ہوئے دھوکے کئے ہیں ان کی تفصیل سے عوام کو واقف کروایا جانا چاہئے اور اسے مستقبل میں حالات کو بہتر بنانے کیلئے اپنے منصوبوں کو قطعیت دینے کیلئے بھی سرگرم ہوجانا چاہئے ۔
جو صورتحال ملک بھر میں پائی جاتی ہے وہ یقینی طور پر اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی ۔ ہر شعبہ میں انحطاط اور سست روی پیدا ہوگئی ہے ۔ مہنگائی بھی اپنے عروج پر پہونچتی جا رہی ہے ۔ اس کے باوجود حکومت پٹرول و ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی کمی کرنے تیار نہیں ہے ۔ حکومت کو صرف عوام کو گمراہ کرنے اور اعداد و شمار کے الٹ پھیر پر اکتفاء کرنے کی بجائے حقیقی صورتحال کا اعتراف کرنا چاہئے ۔ عوام کو حقائق سے واقف کروایا جانا چاہئے اور مستقبل میں حالات کو بہتر بنانے مشاورت اور حکمت عملی کا تعین کرنا چاہئے ۔