روس ۔ یوکرین جنگ عالمی معیشت تباہ

   

پروین کمال ،جرمنی
رواں صدی کی تاریخ میں روس۔ یوکرین جنگ کو دوسری عالمی جنگ کا نام دیا جائے گا ۔ اس حالیہ جنگ سے عالمی معیشت کس قدر متاثر ہوئی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس وقت دُنیا کی بڑی بڑی تنظیمیں حالات پر قابو پانے کیلئے مسلسل جدوجہد کررہی ہیں چنانچہ اس سال جون میں G7 (گروپ آف سیون) کا اجلاس منعقد کیا گیا تھا کہ کسی طرح حالات اعتدال پر لائے جائیں، لیکن ابھی تک اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔G-7 میں دراصل سات ملک (فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور جاپان) شامل ہیں۔ یہ سات ملک دنیا کے سب سے دولت مند اور صنعتی ملک کہلائے جاتے ہیں جو صنعتی طور پر بہت زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ ان ملکوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر اقتصادی اور سیاسی تدابیر کا بغور جائزہ لیں اور ان کے منفی پہلو کا کوئی شہر لائحہ عمل ڈھونڈ نکالے۔ جون میں ہوئے اس اجلاس کا عین مقصد یہ تھا کہ جنگ ختم کروانے کیلئے روس پر ہر طرف سے دباؤ ڈال کر کسی طرح مذاکرات کی میز تک لایا جائے، لیکن ابھی تک کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آئی۔ روس کو دراصل اب انا کا مسئلہ درپیش ہے، کیونکہ آگے بڑھے ہوئے قدم پیچھے ہٹائے نہیں جاسکتے۔ کچھ غوروفکر کرنے والے ذہنوں میں یہ خیالات بھی گردش کررہے ہیں کہ وہ اپنی تحلیل شدہ سوویت یونین دوبارہ بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ ہاں سوویت یونین کی تھوڑی سی تفصیل جاننا ضروری ہے۔ سوویت یونین دراصل پندرہ ریاستوں کا مجموعی اتحاد تھا جو 1922ء میں قائم کیا گیا تھا جس کو دنیا سوویت یونین کے نام سے جانتی ہے جو 1991ء میں ٹوٹ چکا ہے۔ اس وقت روس بھی امریکہ کی طرح دنیا کی عظیم طاقت مانا جانا تھا اور یہ دونوں ہی ملک اپنے بل بوتے پر سوپر پاور بنے تھے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔ ان چھ سالہ عالمی جنگ کے نتیجہ میں برطانیہ اتنا سکڑ گیا کہ وہ صرف جزائر برطانیہ تک ہی محدود ہوکر رہ گیا اور یہی وہ خاص موقع تھا جب امریکہ نے اس کی جانشینی حاصل کرلی اور سوپر پاور کہلانے لگا اور اس نے اپنی بحری قوت میں دن بدن اضافہ کرکے دنیا کی عظیم ترین بحری قوت بن گیا۔ اس کے بعد روس نے بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کے مدمقابل کھڑے ہونے کی کوشش کی اور کامیاب رہا اور یوں روس اور امریکہ دونوں ہی ملکوں کو دنیا نے سوپر پاور مان لیا، لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ عظیم ترین طاقتوں کے سورج بھی غروب ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی ہوا۔ عالمی جنگ کے اختتام کے بعد مشرقی یورپ میں آزادی کی جو لہر چلی، اس وقت سوویت یونین میں شامل پندرہ ریاستوں نے بھی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکمل آزادی اور خودمختاری کا اعلان کردیا جو روسی آئین کے عین مطابق تھا جس میں یونین میں شامل ملکوں کو وفاق سے علیحدگی کا حق دیا گیا تھا لیکن حقائق اس سے بالکل مختلف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت حکومت ایک سخت ترین حکومت تھی اور یہ کہ کوئی بھی ملک اس سے علیحدگی کا تصور تک نہیں کرسکتا تھا مگر ارکان ممالک نے قانون کا فائدہ اٹھایا اور علیحدگی اختیار کرلی۔ یوکرین انہیں علیحدگی حاصل کرنے والی حکومتوں میں سے ایک ہے جو گزشتہ 30 سال سے ایک آزاد اور خودمختار حکومت کے طور پر سفر کررہا ہے اور اپنے ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں سرگرم عمل ہے جس کا مقابلہ آج روس جیسی میزائیل طاقت والے ملک سے ہے۔ سات مہینوں سے جاری اس جنگ کا ابھی تک کوئی امید افزاء نتیجہ نہیں نکل سکا کیونکہ یہاں بات دو ملکوں کی نہیں بلکہ کمزور اور طاقتور کی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس جنگ کے ختم ہونے میں برس لگ سکتے ہیں جبکہ اتنے کم عرصہ میں ہی دنیا معاشی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر معاشی بے چینی، عدم استحکام، پھر مختلف خطوں میں اجناس کی کمی، سب سے بڑا مسئلہ تیل اور گیاس کی قلت ہے اور مہنگائی سے مقابلہ، دنیا کی بڑی طاقتیں بھی جس سے نبردآزما ہیں۔ اس وقت پوری یوروپی برادری یوکرین کی حمایت میں ہے اور ہر طرح سے اعانت کی جارہی ہے۔ یوکرین کا مطالبہ ہے کہ موسم سرما سے قبل جنگ ختم کروادی جائے، کیونکہ مسلسل میزائل حملوں سے یوکرین کھنڈر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ ایک اور مطالبہ یہ بھی ہے کہ جتنے علاقے روس نے غصب کئے ہیں، وہ واپس کئے جائیں۔ لیکن یہ مسئلہ حل ہونا بہت ہی مشکل ہے۔ اس کے لئے مذاکرات کے ٹیبل پر فریقین کا موجود ہونا ضروری ہے۔ روس اس بات پر راضی نہیں ہے جس کی وجہ سے کوئی حل نہیں نکل رہا ہے البتہ یوکرین کیلئے ایک امید افزاء بات جو سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ یوکرین کو یوروپی یونین کے امیدوار کی حیثیت سے منظوری دے دی گئی ہے اور یہ بھی کہ یوروپی مشترکہ کرنسی ’’یورو‘‘ میں شرکت کی اجازت بھی مل چکی ہے، مگر اس کیلئے یوروپی معیارات پر پورے اُترنا ضروری ہے جس کے لئے ایک لمبا عرصہ چاہئے۔ خصوصاً ایک ایسے وقت جبکہ جنگی حملوں سے ملک کی طاقت ٹوٹ چکی ہے۔ راستہ کٹھن ہے۔ طویل وقت درکار ہوگا۔
بہرکیف آج کی باشعور دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جنگوں سے انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ شہر بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں اور جو انسان بارود کا نشانہ بنتے ہیں، اُن کی اگلی نسلیں معذور پیدا ہوتی ہیں۔ ماضی کے تجربے ہمیں حاصل ہیں۔ انسانوں کی رہنمائی کیلئے ماضی ہمیشہ سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ ہم اس کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کل جب کرۂ ارض پر انسان نے قدم رکھا تھا، تو وہ تن پوشی کرنا تک نہیں جانتا تھا لیکن آج کا انسان آسمان کی وسعتوں تک پہنچ چکا ہے، قرنوں کے فاصلے طئے کرتے ہوئے اب وہ ذہنی سطح پر اتنا زیرک اور ذی فہم ہوچکا ہے کہ ہر ہونے والے خطرے کو محسوس کرسکتا ہے اور اس سے بچنے کی تدابیر بھی کرسکتا ہے لیکن وہ اس راستے پر چلنے کیلئے آمادہ نہیں کیونکہ ذاتی مفادات اسے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ غرض دنیا اس وقت ایک مہیب خطرے کے داہنے پر کھڑی ہے۔ اس قہر سے بچنے کیلئے لوگ اپنے ملک سے سفر پر روانہ ہورہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں انسانوں کا اژدھام دوسرے ملکوں سے رحم و کرم کی امیدیں لئے نکل پڑا ہے۔ خاص طور پر جرمنی کی سرحدوں پر ہزاروں افراد بے یار و مددگار کھڑے ہیں کہ تھوڑا سا موقع مل جائے اور وہ سرحد پھاند کر جرمنی میں داخل ہوجائیں۔ کئی دن سے کھڑے بھوک و پیاس سے بے تاب مہاجر کھلے آسمان کے نیچے سردیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے زمین پر گذارا کررہے ہیں۔ کچھ تو موت کی آغوش میں پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے جرمنی ، مہاجرین کو پناہ دیتا آیا ہے لیکن اب بات انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ عوام اور چند سیاست دانوں کا اصرار ہے کہ یہ سلسلہ ختم کیا جائے، کیونکہ ملک کی معیشت پر اس کا بہت اثر پڑ رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا بوجھ عوام پر بھی پڑے گا لہذا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سختیاں بڑھا دی گئی ہیں اور ان معصوم و بے پناہ انسانوں کی ہر طرح سے موت ہورہی ہے۔ غرض اب یہ کوئی نہیں جانتا کہ جنگ کب تک چلے گی اور آخر میں جیت کس کی ہوگی۔آیا ظالم کی یا پھر مظلوم کی۔ مستقبل میں خواہ جو بھی ہو لیکن اس وقت تو انسانیت جنگ کی چکی میں پسی جارہی ہے۔ مصیبتیں اور محرومیاں انسانوں کو نگلنے کیلئے ہر طرف کھڑی ہیں اور آگے بڑھ کر مدد کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ مسائل حل کرنے کا طریقہ جنگوں میں نہیں ہے بلکہ گفت و شنید میں ہے لیکن اس کیلئے فریقین تیار ہوجائیں تو سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ خواہ ایک طویل بحث و تکرار اور بڑے سے بڑے معاہدات طئے ہونے کے بعد ہی سہی، لیکن وہ وقت کب آئے گا؟ میری طرح کروڑوں ذہنوں میں یہ سوال گردش کررہا ہوگا جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ دنیا کی مظلوم انسانیت کل بھی خوشحال زندگی دیکھنے کی خواہش مند تھی اور آج بھی اس خوبصورت خواب کو پورا ہوتے دیکھنے کیلئے پُرامید ہے۔