روکے سے کہاں حادثۂ وقت رُکا ہے

,

   

کورونا کا بہانہ … بھارت جوڑو یاترا نشانہ
اب تو علامہ اقبال سے بھی نفرت

رشیدالدین
کورونا نے ہندوستان پر پھر دستک دی ہے ۔ کورونا نے دنیا کے کئی ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی قہر ڈھایا جس کے تحت جانی نقصانات کے ساتھ معیشت بھی پٹری سے اتر گئی ۔ خود ہندوستان میں کئی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے اور موت کے اس بھیانک کھیل کی یاد آج بھی خوف میں مبتلا کرتی ہے۔ شائد ہی کوئی خاندان ایسا ہو جس نے اپنے قرابت داروں اور خونی رشتوں کو اس وباء میں نہ کھویا ہو۔ وباء کے دوران لاک ڈاؤن کے سناٹے میں ایمبولنس گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں آج بھی کانوں میں گشت کر رہی ہیں اور دن اور رات کے کسی بھی حصہ میں جب ایمبولنس کی آواز آتی تو لوگ یہ محسوس کرنے لگتے کہ موت ان کے قریب آرہی ہے۔ سنسان سڑکیں اور گھروں میں سہمے ہوئے بچوں ، جوان اور بوڑھوں میں کورونا کے خوف نے خونی رشتوں کی ڈور کو توڑ دیا تھا۔ قریبی رشتہ دار تو چھوڑیئے ماں باپ کے جنازہ میں اولاد شریک ہونے تیار نہیں تھی۔ میتوں کو کاندھا دینے کا تصور جیسے ختم ہوچکا تھا اور ہرشخص دوسرے سے خوفزدہ اور دور بھاگ رہا تھا۔ موت کے بے رحم ہاتھوں نے کئی خاندانوں کو بے سہارا کردیا ۔ کورونا نے صرف انسانی جانوں پر قہر نہیں برسایا بلکہ معیشت کو بھی الٹ کر رکھ دیا تھا۔ وباء کی شدت میں کمی کے بعد معمول کی زندگی ابھی بحالی کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک پھر وباء نے دستک دی ہے۔ تجارتی سرگرمیاں اور معاشی صورتحال پوری طرح بحال نہیں ہوئی تھی کہ تباہی کے ایک نئے دور کے اندیشوں نے انسانیت کو پھر ایک بار خوف و دہشت میں مبتلا کردیا۔ دنیا کے بیشتر حصہ میں کورونا کا اثر کم ضرور ہوا لیکن جہاں سے وباء کا آغاز ہوا ، وہاں کورونا کی پرورش جاری ہے۔ چین پھر ایک مرتبہ کورونا کے مرکز میں تبدیل ہوچکا ہے اور وباء نے دنیا کیلئے رخت سفر باندھ لیا ہے۔ امریکہ ، جاپان اور دیگر ممالک میں کیسس میں اضافہ کے بعد ہندوستان نے بھی چوکسی اختیار کرلی ۔ چین کے دواخانوں کے دل ہلادینے والے مناظر ان لمحات کی یاد تازہ کر رہے ہیں، جب آکسیجن نہ ملنے پر مریض دواخانوں اور راستہ میں دم توڑ رہے تھے۔ آکسیجن سلینڈرس کی قلت نے قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ ماہرین نے کورونا کی شدت اور گزشتہ کی طرح تباہی کے امکانات سے انکار کیا ہے لیکن عوام کے دلوں سے خوف نکالنا آسان نہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک میں کورونا ٹیکہ اندازی 95 فیصد مکمل ہوچکی ہے ، لہذا وباء کے اثرات ہلاکت خیز نہیں رہیں گے۔ کورونا سے بچاؤ کیلئے علاج سے زیادہ احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ وباء کی صورت میں حکومت کس حد تک مقابلہ کیلئے تیار ہے، اس بارے میں بلند بانگ دعوے برقرار ہیں لیکن گزشتہ دو لہر کے دوران حکومت صورتحال سے نمٹنے اور عوام کی زندگی کے تحفظ میں ناکام ہوچکی تھی۔ دریائے گنگا میں ہزاروں بہتی نعشوں نے دنیا بھر میں ہندوستان کا سر شرمندگی سے جھکادیا تھا۔ لاکھوں مائیگرینٹ ورکرس سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کیلو میٹر کا فاصلہ پیدل طئے کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے تھے ۔ گھر پہنچنے سے قبل ہی راستہ میں کئی ورکرس کی موت واقع ہوگئی تھی۔ بعض ریاستوں نے اپنے خرچ پر ورکرس کیلئے ٹرینوںکا انتظام کیا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی قوم سے خطاب کیلئے ٹی وی پر دکھائی دیتے تھے۔ بی جے پی نے کورونا کی صورتحال کو بھی سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ کورونا نے بھلے ہی دستک دی ہو لیکن عوام گزشتہ دونوں لہر کے تجربات کے تحت نئی لہر سے نمٹنے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ نئی لہر کے اثرات کے بارے میں ابھی تک کچھ واضح نہ ہوسکا لیکن نریندر مودی حکومت نے کورونا کی آڑ میں راہول گاندھی کو نشانہ بنایا ہے۔ وزارت صحت سے مکتوب روانہ کرتے ہوئے راہول گاندھی کو بھارت جوڑو یاترا روک دینے کا مشورہ دیا گیا ۔ راہول کی بھارت جوڑو یاترا اختتامی مراحل میں ہے۔ آئندہ ماہ کے اختتام تک جموں و کشمیر میں یاترا کا اختتام ہوگا۔ مرکزی حکومت نے جس انداز میں یاترا کو نشانہ بنایا ہے، دراصل یاترا سے حکومت کا خوف جھلک رہا ہے۔ اگرچہ گودی میڈیا بھلے الیکٹرانک ہو کہ پرنٹ دونوں نے بھارت جوڑو یاترا کا بلیک آؤٹ کردیا لیکن پھر بھی عوام میں یاترا کو لے کر جوش و خروش نے مودی حکومت اور بی جے پی کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ یاترا روکنے کی صلاح دیتے ہوئے مودی حکومت نے آئندہ کسی سنگین صورتحال پر راہول اور ان کی یاترا کو ذمہ دار قرار دینے کی تیاری کرلی ہے۔ ہمیں یاد ہے جب مرکزی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے تین ماہ تک جو مسلسل احتجاج کیا تھا، وہ کورونا وباء کے دور میں تھا ۔ دھن کے پکے کسانوں نے نہ صرف کورونا بلکہ بارش اور سردی کی پرواہ کئے بغیر مقصد کی تکمیل کیلئے کھلے آسمان کے نیچے احتجاج جاری رکھا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ مودی کو کسانوں سے معافی مانگتے ہوئے زرعی قوانین کو واپس لینا پڑا۔ کسانوں کے عزم اور حوصلے نے نہ صرف مودی حکومت بلکہ کورونا کو بھی شکست دیتے ہوئے ثابت کردیا تھا کہ مقصدکے حصول کی سچی لگن ہو تو کورونا بھی قریب نہیں آتا۔ راہول گاندھی ملک سے نفرت کے خاتمہ اور عوام کو آپس میں جوڑنے کے مقصد سے یاترا کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ اس مقصد کی تکمیل کی راہ میں کورونا رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
بھارت جوڑو یاترا کو روکنے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی میدان میں آگئے۔ انہوں نے کورونا کے مسئلہ پر اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس منعقد کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ صورتحال سنگین ہوسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابقہ لہر میں جس وقت لوگ آکسیجن کی کمی سے سڑکوں پر دم توڑ رہے تھے اور گنگا میں ہزاروں لاشیں بہہ رہی تھیں، اس وقت نریندر مودی کہیں دکھائی نہیں دیئے ۔ انہوں نے آکسیجن کے انتظام اور لاشوں کے انتم سنسکار پر کوئی جائزہ اجلاس نہیں رکھا۔ اب جبکہ راہول گاندھی عوام میں مقبول ہورہے ہیں تو اچانک کورونا کا بہانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر کسی ریاست میں الیکشن ہوتا اور نریندر مودی کو مہم چلانی ہوتی تو کورونا یاد نہیں آتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کورونا سے بی جے پی کی دوستی ہے ؟ وائرس صرف اپوزیشن کی ریالیوں اور جلسوں میں پہنچتا ہے جبکہ بی جے پی کی ریالیوں اور مودی کے جلسوں کو کورونا نے چھوٹ دے دی ہے۔ عوام پہلی اور دوسری لہر کے دوران مودی کی ریالیوں کو بھولے نہیں ہیں۔ نومبر 2020 ء میں بہار اور مارچ/ اپریل 2021 ء میں مغربی بنگال ، ٹاملناڈو ، پڈیچیری، کیرالا اور آسام اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تھے۔ کورونا لہر کے باوجود نریندر مودی مغربی بنگال اور آسام میں ریالیاں کرتے رہے ، اس وقت کورونا کا خیال نہیں آیا۔ انتخابی اور سیاسی فائدہ ہو تو بی جے پی کورونا سے دوستی کرلیتی ہے ۔ راہول گاندھی کو یاترا روکنے کا مشورہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں عوام نفرت کی سیاست سے عاجز آچکے ہیں۔ فرقہ پرستی اور مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ اترپردیش میں طرح طرح سے دینی مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اترپردیش ملک میں ہندوتوا کی سب سے بڑی فیکٹری بن چکی ہے۔ کل تک مسلمانوں کو اذان، نماز ، لوجہاد ، بیف اور دیگر عنوانات سے نشانہ بنایا گیا لیکن اب تو دینی مدارس کی جمعہ کو چھٹی بھی برداشت نہیں ہے۔ دینی مدارس میں جمعہ کے بجائے اتوار کو تعطیل دینے کا مطالبہ کیا جارہاہے۔ مدارس میں کیا پڑھایا جائے اس پر بھی حکومت کی نظر ہے۔ دینی تعلیم حتیٰ کہ جمعہ کی چھٹی جب برداشت نہیں تو ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دینی مدارس میں پکوان کا مینو بھی حکومت طئے کرے گی تاکہ دینی مدارس کے بچوں کو دی جانے والی غذا پر بھی کنٹرول کرسکے۔ اتنا ہی نہیں اب تو علامہ اقبالؒ بھی نفرت کے دائرہ میں شامل ہوچکے ہیں۔ بریلی کے ایک سرکاری اسکول میں علامہ اقبالؒ کی دعائیہ نظم پڑھانے پر پرنسپل کو معطل کردیا گیا اور مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ علامہ اقبال نے بچوں کے لئے جو دعائیہ نظم لکھی ہے، اس میں برائیوں سے بچنے اور ملک کی خدمت کا جذبہ پیش کیا گیا ہے چونکہ یہ نظم علامہ اقبال کی ہے ، لہذا وشوا ہندو پریشد کے نفرت کے سوداگروں کو پسند نہیں۔ اگر علامہ اقبال سے اتنی ہی نفرت ہے تو پھر ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ پڑھنا بھی بند کردیں۔ یہ وہ نظم ہے کہ جو روزانہ ہندوستانی سپاہیوں میں جذبہ حب الوطنی پروان چڑھانے کیلئے پڑھی جاتی ہے۔ ہندوستان کی کسی اور زبان میں حب الوطنی کے ایسے گیت نہیں ہیں جو اردو زبان نے ملک کو تحفہ دیا ہے۔ جدوجہد آزادی سے لے کر آج تک اردو زبان کی خدمات کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔ علامہ اقبال سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا گیا کہ ملک میں فرقہ پرستی کا جنون انتہا پر ہے۔ حضرت علی احمد جلیلی کا یہ شعر صورتحال پر صادق آتا ہے ؎
روکے سے کہاں حادثۂ وقت رُکا ہے
شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے