ریفریجریٹر

   

عزیز بچو! یہ تو سب جانتے ہیں کہ پرانے زمانے میں چیزوں کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے صرف برف ہی استعمال ہوتا تھا ۔ یہ برف قدرتی بھی ہوتا تھا یا پھر مصنوعی، لیکن ٹھنڈک پیدا کرنے کا ایک اور طریقہ بھی لوگوں کو معلوم تھا۔ اس طریقے میں بعض خاص قسم کے نمک کو پانی میں حل کیا جاتا تھا بعض مادے مثلاً سالٹ پیٹر (Saltpeter) اور امونیم نائیٹریٹ جس پانی میں حل ہوتے ہیں، اس کی حرارت کو کم کردیتے ہیں۔ یعنی پانی کی تپش کو گرادیتے ہیں۔ نمک کی موجودگی سے پانی کا نقطہ تبرید (Freezing Point) کم ہوجاتا ہے ۔ نمک کو اگر برف پر رکھا جائے تو برف پانی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس تبدیلی کیلئے توانائی یعنی حرارت (Heat) کی ضرورت ہے۔ یہ حرارت پانی سے ملتی ہے جس سے پانی کی تپش کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح تبرید یعنی ٹھنڈک پیدا کرنے کیلئے یا تو برف یا پھر پانی میں حل شدہ نمک کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس کے علاوہ ایک اور طریقہ بھی ہے جس سے ٹھنڈک پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ہے کہ تبخیر (Evaporation) کا عمل یعنی مائع کو بخارات میں تبدیل کردینا ۔ اگر تم اپنی ہتھیلی پر تھوڑا سا پانی یا الکحل رکھو تو تمہیں ٹھنڈک محسوس ہوگی۔ یہ اس لئے کہ ہاتھ کی حرارت مائع کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے۔ اسی تبخیر کے اصول پر موجودہ ’’’ریفریجریٹر‘‘ (Refrigerator) بنایا گیا ہے۔ 1823ء میں انگریز سائنسداں مائیکل فیراڈے نے پہلے امونیا کے بخارات پر دباؤ ڈال کر اسے مائع میں تبدیل کیا پھر اس مائع سے حرارت واپس لینے کا طریقہ معلوم کیا ۔ جب اس مائع پر سے دباؤ ہٹاکر اسے تبخیر کا موقع دیا جائے تو مائع کی حرارت اس عمل میں خرچ ہوتی ہے اور سردی پیدا ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم کسی چیز کو کیسی حالت سے مائع حالت میں لاتے ہیں، اس کیلئے ہم اسے حرارت دیتے ہیں پھر اس کو مائع حالت سے کیسی حالت میں واپس لاتے ہیں اور حرارت کو اس سے واپس لے لیتے ہیں۔ موجودہ ریفریجریٹر میں اسی عمل کو قابو میں رکھ کر مسلسل بار بار دہرایا جاتا ہے۔ فیراڈے کے اسی اصول پر ریفریجریٹر کی پہلی مشین کو 1874ء میں سوئٹزرلینڈ کے ایک سائنس دان کارل لنڈے نے بنایا جس میں مائع کیلئے اس نے امونیا کو استعمال کیا۔