زعفرانی بریگیڈ سے پولیس کو خوف

   

رام پنیانی
پچھلے ماہ سلسلہ وار انداز میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جو بہت زیادہ پریشان کن تھے۔ باالفاظ دیگر وہ واقعات ایسے تھے، جس کے ذریعہ نفرت اور غلط فہمیوں کو فروغ دیا جارہا تھا۔ مسلمانوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے خلاف فحش کلامی کی گئی، اس طرح کے واقعات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی قوم پر ’’دی وائر‘‘ کی تحقیقات سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ معاشرہ میں نفرت کا طوفان برپا کرنے کیلئے ’’ٹیک فوگ‘‘ جیسا خطرناک اپلیکیشن کا بھرپور استعمال ہوا۔ اتراکھنڈ کے ہری دوار میں یتی نرسنگھانند اور دیگر نے دھرم سنسد کا اہتمام کیا۔ اس دھرم سنسد میں زعفرانی لباس پہنے ہوئے عناصر نے دل کھول کر اقلیتی طبقہ کے خلاف زہر اُگلا اور یہاں تک کہ اقلیتوں کے قتل عام کی اپیل بھی کردی۔ یتی نرسنگھانند فی الوقت عدالتی تحویل میں ہے۔ اس نے دھرم سنسد میں کچھ یوں کہا تھا : ’’اگر کوئی ہندوؤں کا پربھاکرن (ایل ٹی ٹی ای کا سابق سربراہ جس نے سری لنکا میں خودکش دھماکوں کی شروعات کی تھی اور جسے سری لنکن فوج نے اپنی کارروائی میں ہلاک کردیا) بننے کی ذمہ داری لیتا ہے تو میں اسے ایک کروڑ روپئے نذرانہ پیش کروں گا اور اگر وہ اسی طرح ایک سال اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے تو اس کیلئے میں کم از کم 100 کروڑ روپئے جمع کروں گا‘‘۔ اس معاملے میں یتی نرسنگھانند ہی آگے نہیں ہے، بلکہ نفرت پھیلانے میں سادھوی انا پورنا کسی سے کم نہیں۔ یتی نرسنگھانند نے پربھاکرن بننے پر ایک کروڑ روپئے دینے کا اعلان کردیا تو اس سے دو قدم آگے بڑھ کر سادھوی انا پورنا نے 20 لاکھ مسلمانوں کے قتل پر زور دیا اور یہ کہتے ہوئے اپنی زہر افشانی کی مدافعت کی کہ یہ ہمارے مذہب کے تحفظ کیلئے ہے۔ ہاں! یہ ہمارا فرض ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جو کوئی ہمارے مذہب کے خلاف ہوگا اسے ہم قتل کردیں گے۔
یہ وہی سادھوی ہے جو ماضی میں پونم شکون پانڈے کی حیثیت سے جانی جاتی تھی اور جس نے کچھ سال قبل بابائے قوم مہاتما گاندھی کے علامتی پتلے میں تین گولیاں داغی تھی۔ بہرحال اسی دھرم سنسد میں جیتندر تیاگی نے بھی اپنے سابقہ مذہب کے خلاف بہت زہر اگلا اور اس معاملے میں گرفتار ہونے والا وہ پہلا شخص تھا۔ اس واقعہ کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ٹی وی چیانل ’’سدرشن ‘‘کے سریش چوہانکے ہندو نوجوانوں کو اپنے مذہب کیلئے مارنے یا مرنے کا حلف دلا رہا ہے۔ اس نے یہ حلف ہندو یووا واہنی کی جانب سے دہلی میں منعقدہ ایک پروگرام میں 250 نوجوانوں کو دلایا۔ اس نے حلف دلاتے ہوئے نوجوانوں سے یہ الفاظ دہرانے کیلئے کہا: ’’ہم تمام یہ عہد لیتے ہیں کہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس ملک میں ہندو راشٹر قائم کرنے کیلئے لڑائی کی خاطر ہم تیار رہیں گے، مرنے کیلئے تیار رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر قتل کیلئے بھی تیار رہیں گے‘‘۔ ان واقعات کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ’’بلی بائی ‘‘ ایپ کی دہلا دینے والی خبر منظر عام پر آئی۔ چند ماہ قبل ہی ’’سلی ڈیلس‘‘ ایپ منظر عام پر آیا تھا، اب ’’بلی بائی ‘‘ ایپ کے ذریعہ ممتاز مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اقلیتوں کے حقوق، ان کے وقار اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے آوازیں اٹھائی تھیں، لیکن افسوس نفرت کے سوداگروں نے ان مسلم خواتین کو آکشن کیلئے پیش کردیا یا انہیں بولی کیلئے پیش کیا۔ ’’دی وائر‘‘ نے اس معاملے میں جو بھی تحقیقات کی، اس سے یہی پتہ چلا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پچھلے چند برسوں سے آئی ٹی سیل کام کررہا ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ بی جے پی ’’ٹیک فوگ‘‘ اپلیکیشن استعمال کررہی ہے، یہ ایسا ایپ ہے جو مختصر سے وقت میں بڑے پیمانے پر پروپگنڈہ کرسکتا ہے۔ اس ایپ کے چلانے والوں نے موافق بی جے پی اور ہندوتوا پروپگنڈہ نہ صرف ٹوئٹر پر چلانے بلکہ سوشیل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمس کے ذریعہ پھیلانے کا بھی کام کیا ہے۔ نفرت پر مبنی تقاریر اور نفرت انگیز سرگرمیوں کو نفاذ قانون کی ایجنسیوں نے بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا اور اس طرح کے واقعات میں اکثر ملزمین کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ بہرحال اس مرتبہ وہ بھی ممبئی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بلی بائی ایپ تیار کرنے والے گرفتار کیا جبکہ ہری دوار پر منعقد کئے گئے دھرم سنسد کے خلاف پولیس نے کوئی مناسب کارروائی نہیں کی۔ صرف جیتندر تیاگی کو گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری بھی عمل میں نہیں لائی جاتی اگر سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ہی ایک اور ملزم یتی نرسنگھانند کی گرفتاری عمل میں آئی۔
ایک طرف نفرت انگیز تقاریر اور دھمکیاں مسلمانوں کو دی جارہی تھی، دوسری طرف ہندوستان کی عظیم روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ہندوستانی بحریہ کے چند سابق سربراہوں نے صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کو مکتوب روانہ کیا اور نفرت پر مبنی جرائم کے مرتکبین کے خلاف کارروائی پر زور دیا۔ اسی طرح انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹس ؍ آئی آئی ٹیز کے طلبائے قدیم، موجودہ طلباء اور ارکان فیکلٹی نے حکومت کی توجہ زہر آلود ماحول کی طرف مبذول کروائی اور اس طرح کی صورتحال کے خاتمہ کیلئے نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔ بہرحال ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ملک میں نفرت پھیلانے والے گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ خود کے قوم پرست ہونے کا دعو یٰ کرتے ہیں۔ یہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، اس کا مقصد معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا ہے۔ ہندوستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ، جینوسائیڈ واچ اور امریکہ میں حقوق انسانی کی سرگرم دیگر 17 تنظیموں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان تنظیموں نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین نے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر موجودہ صورتحال پر کنٹرول نہ کیا جائے تو ہندوستان میں صورتحال سنگین رخ اختیار کرسکتی ہے اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف تشدد و قتل عام برپا کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف عالمی سطح پر ہندوستان میں بڑھتی فرقہ پرستی و مذہبی انتہا پسندی پر تشویش ظاہر کی جارہی ہے تو دوسری طرف حکمراں جماعت اس تعلق سے بہری ، گونگی اور اندھی بنی بیٹھی ہے اور اس کی یہ خاموشی اُس کے بہرہ اور اندھے پن پر ہمیں کوئی حیرت بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم ہر وقت اپنا منہ بند رکھتے ہیں۔ روہت ویمولا کا ایک تعلیمی ادارہ میں قتل ہوجاتا ہے، لیکن وزیراعظم اس قتل کے خلاف ایک لفظ ادا نہیں کرتے۔ محمد اخلاق کو ہجومی تشدد کا نشانہ صرف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے گھر کے فریج میں کھانا جمع رکھا تھا اور فرقہ پرستوں نے اس کھانے کو گائے کا گوشت قرار دے کر ہجومی تشدد میں دادری کے اُس ضعیف شخص کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ جان بوجھ کر خاموشی اختیار کرنا اور فرقہ پرستوں کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچانا دراصل ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ نفرت پر مبنی تقاریر کے اثر کو یقینی بنایا جائے۔ خطرناک تقریروں سے ہونے والی تباہی کو یقینی بنائی جاسکے۔ آج مذہب کے نام پر جو لوگ مسلمانوں کے قتل عام کی بات کررہے ہیں ، اس کیلئے فرقہ پرستوں نے برسوں سے تیاری کی ہے۔ دھرم سنسد کی مثال لیجئے ، یہ دراصل آر ایس ایس سے ملحقہ تنظیم وی ایچ پی کی جانب سے پیش کیا گیا تصور یا نظریہ ہے، کیونکہ یہ دھرم سنسد ہی تھی، جس نے سب سے پہلے رام مندر کا مسئلہ اٹھایا جو تاریخی بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ملک کی تاریخ کے بدترین فسادات کا باعث بنا۔ دوسروں سے نفرت کی جڑیں اب دور دور تک پہنچ گئی ہیں۔ شاکا باؤدھک سے اس کا آغاز ہوا۔ جہاں مسلم حکمرانوں کو ایک برائی کے طور پر پیش کیا گیا اور منو سمرتی کے اقدار کی ستائش کی گئی۔ فرقہ پرستوں کے اسی ایجنڈہ کو لے کر پچھلے نو دہوں سے بے شمار تنظیموں کا جنم ہوا ، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو ملیامیٹ کرکے اس عظیم ملک کو ہندو راشٹر بنا دیا جائے۔ اس کیلئے سوشیل میڈیا اور نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جارہا ہے اور کم عمر نوجوان طلباء و طالبات کے ذریعہ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کے ذہنوں کو زہر آلود کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں شبھو لال ریگر کا ذکر ضروری ہوگا ، جو سوشیل میڈیا پر بہت زیادہ مصروف رہا کرتا تھا اور اس نے لو جہاد کے نام پر ایک مسلم مزدور افرازل کو انتہائی بہیمانہ انداز میں شہید کردیا۔ آپ کو بتادیں کہ بلی بائی ایپ کیس میں جن چار نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں ، وہ صرف دکھاوا ہے جبکہ ’’ٹیک فوگ‘‘ اپلیکیشن پروپگنڈہ کا ایک نیا آلہ ہے جو ہندوستانی معاشرہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جہاں تک ہماری پولیس کا سوال ہے، وہ زعفرانی لباس میں ملبوس انتہا پسندوں کو چھونے سے بھی ڈرتی ہے۔ ہاں ایک بات ہے کہ سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواستیں ہی اس ملک کو نفرت کے سوداگروں سے بچا سکتی ہیں اور حکمراں کی جان بوجھ کر اختیار کی گئی خاموشی کو ختم کرسکتی ہے۔