زمانہ معترف ہے ہماری استقامت کا

   

مظفر نگر میںمحمد حامد حسن کو پیٹتے ہوئے پولیس نے کہا’’ تمہارے لئے دو ہی مقام ہیں‘
قبرستان یا پاکستان‘‘ ۔ 70سالہ حامد حسن اپنی پوتریوں کی شادی کا کارڈ دیکھ کر روپڑے

سید اسماعیل ذبیح اللہ
ریاست اترپردیش میںشہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران بندوق کی گولیوں سے زخمی ہونے کے سبب دوران علاج فوت ہونے والوں کی تعداد 23تک پہنچ گئی ہے۔سوشیل میڈیاپر ایسے کئی ویڈیوز وائیرل ہورہے ہیں جس میںپولیس بربریت صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔اترپردیش کے کئی ایسے اضلاع ہیں جہاں پر انٹرنٹ خدمات مسدود کردئے گئے ہیں‘ اور پولیس اس کے حوالہ دے رہی ہے کہ افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کے لئے یہ کام انجام دیاگیاہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔جمعرات کے روز احتجاج کے دوران بندوق کی گولی سے زخمی ہونے والے دو نوجوان دہلی کے صفدر جنگ اسپتال اور اے ائی ائی ایم ایس ٹروما سنٹر میںفوت ہوگئے ۔ریاست اترپردیش کے فیروز آباد میں20ڈسمبر کے روز پیش ائے احتجاج کے دوران پولیس سے جھڑپ اور بھگدڑ میںکئی لوگ زخمی ہوگئے اور تشویش کی بات تو یہ ہے کہ زخمیوں میںزیادہ تر لوگ بندوق کی گولیوں کانشانہ بنے ہیںجبکہ اترپردیش پولیس بارہا اس با ت کا دعوی کررہی ہے کہ اس نے مظاہرین پر گولیاں نہیںچلائی ہیںتو آخر وہ کون لوگ ہیںجو سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو گولیوں سے نشانہ بنارہے ہیں۔شہریت ترمیمی ایکٹ ( سی اے اے )اور امکانی قومی رجسٹرار برائے شہریت ( این آرسی ) کے خلاف ملک بھر میںاحتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔سی اے اے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ آسام سے شروع ہوا جہاں پر سپریم کورٹ کی نگرانی میںکرائی گئی این آرسی کی وجہہ سے انیس لاکھ لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے میںناکام ہوگئے ہیں۔ حالانکہ آسام میںاین آرسی مقامی عوام کے شدید احتجاج کی وجہہ سے عمل میںائی تھی مگر وہاں کی عوام نے شہر یت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سڑکوں پر اتری اور شدید احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران عوامی املاک کے ساتھ توڑ پھوڑ ‘ بسوں کا جلانے کے واقعات بھی پیش ائے مگر ایسا ایک بھی واقعہ سننے میں نہیںہے جس میںکہاگیاکہ پولیس فائرینگ میںکوئی شہری ہلاک ہوا ہے ۔ یا پھر احتجاجی مظاہروں کے دوران ہوئے نقصانات کی بھر پائی میںشہریوں کی املاک ضبط کی گئی ہے۔ملک کے دیگر حصوں میںبھی سی اے اے او راین آرسی کے خلا ف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرین حکومت کے مجوزہ قومی آبادی راجسٹر ( این پی آر) کے خلاف بھی سڑکوں پر ہیں۔ شمالی ہندوستان میںپولیس بربریت کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ میںاحتجاج کررہے طلبہ کے خلاف یونیورسٹی کیمپس میںغیرقانونی طریقے سے گھس کر طلبہ کی بے تحاشہ پیٹائی اور ان کے ساتھ مجرمو ں جیسے سلوک سے ہوا ہے جہاں پر باضابطہ پولیس نے مظاہرین کے ساتھ نہ صرف بدسلوکی کی ہے بلکہ اپنی فرقہ پرست ذہنیت کبھی بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کی کاروائی ریاست اترپردیش کے مظفر نگر میںبھی کی گئی ہے۔اترپردیش کی بہادر پولیس ہاتھوں میںلاٹھیاں ‘ اور بندوق لئے مسلمانوں کے گھروں میںمبینہ دنگائوں کی تلاش میںزبردستی گھستی ہے بلکہ گھر کے معمر افراد ‘ خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ’’ تمہارے لئے دو ہی مقامات ہیں‘ قبرستان یا پاکستان‘‘۔

ریاست اترپردیش کے مظفر نگر میں ٹمبر ڈپو کا کاروبار کرنے والے 72سالہ حاجی حامد حسن کا کہنا ہے کہ ’’تقریبا30پولیس کے جوان‘ کچھ سادہ لباس میں بھی تھے‘ جمعہ کے روز ان کی دو منزلہ عمارت میںجبراً داخل ہوئے اورگھر میںتوڑ پھوڑ مچائی۔بندوق کے کندے سے حاجی حامد حسن کو پیٹا اور جب و ہ مزاحمت کرنے لگے تو انہیںلاٹھیوں سے مارا گیا۔گھر کا واش بسن توڑ دیا‘ باتھ روم کا ساز وسامان برباد کردیا‘ پلنگ توڑا‘ فرنیچر ‘ فریج ‘ واشنگ مشین اور تمام ضروری سامان تباہ کردیا۔آہ وبکا کے دوران پیٹائی کی‘ ایک انگریزی روزنامہ دی ٹیلی گراف سے بات چیت کے دوران مغموم حالات میں اپنے پیر کو لگی چوٹ دیکھاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’ میںنے رحم کی بھیک مانگے مگر وہ میری گوہار سننے کو تیار نہیںتھے۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں کے پاس دوہی مقام ہیں پاکستان یا قبرستان‘‘۔ انہوں نے کہاکہ پولیس کی بربریت کا سلسلہ تیس سے چالیس منٹ تک جاری رہا۔حسن نے کہاکہ ’’ ہر چیز تباہ کرنے کے بعد ‘ انہوں نے بندوق کی نوک پر زیوارت او رالماری میںرکھے پانچ لاکھ روپئے لوٹ لئے۔ میری دو پوتریوں کی شادی کے لئے حال ہی میں مذکورہ زیوارت میںنے خریدی تھی‘‘۔حسن نے کہاکہ ان کی بیوی کو ایک کمرے میںدو پوتریوں رقعیہ پروین پوسٹ گریجویٹ سائنس ‘ اور مبشرہ پروین گریجویٹ کو بند کردیاگیاتھا۔انہوں نے کہاکہ گھر میںزبردستی داخل ہونے والے مذکورہ پولیس جوانوں اور ان کے ساتھ سادہ لباس میںائے لوگوں نے عورتوںکے ساتھ بھی بدسلوکی کی ‘ حسن کے بیٹے محمد شاہد کو بھی پیٹا‘ حسن نے کہاکہ’ اس کاقصور اتنا ہی تھا کہ جمعہ کی نماز کے بعداحتجاج میںان کے بیٹے نے حصہ لیاتھا‘۔ حسن نے ان پر ڈھائے گئے مظالم کی نم آنکھوں سے داستان بیان کرتے ہوئے کہاکہ ’’ چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ بدلہ لے رہے ہیں اور ان کے پولیس والے احتجاجیوں میںشامل ہونے والے مسلمانوں کونشانہ بنارہے ہیں۔ جس ملک میںپیدا ہوا ہوں وہ ہندوستان اب باقی نہیںرہا ہے۔ہمارے اجداد نے جناح کے پیغام کو مسترد کردیا اورگاندھی کے ہندوستان کو اپنا مگر اس حکومت نے ہمیں پرایا کردیاہے‘‘۔اپنی پوتریوں کی شادی کے کارڈس ( شادی فبروری کی 4تاریخ کو مقرر ہے) اٹھاکر بتاتے ہوئے مایوسی کے عالم میںکہاکہ’’مودی جی آپ ہمیشہ لوگوں سے کہتے ہیں بیٹی پڑھائو ‘ بیٹی بچائو ‘‘مگر آپ کے پولیس والے مجرموں جیسے ہمارے گھر پر دھاوے کرتے ہیں‘ بیٹوں او ربہنوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں ‘ ان کی شادیوں کے لئے جمع کئے گئے زیورات اور رقومات لوٹ لیتے ہیں۔ شادی کا تمام سامان توڑ دیتے ہیں۔ آپ سن رہے ہیں ناں؟‘‘۔مظفر نگر میں مسلمانوں پر ہوئے مظالم میں پولیس اور آر ایس ایس کے ملوث ہونے کی بات مقامی لوگ کہہ رہے ہیں۔ یوگی حکومت میںپولیس اس قدر بربریت کررہی ہے کہ لوگ خوف او رہراسانی کے عالم میںزندگی گذاررہے ہیں۔ سابق کانگریس رکن پارلیمنٹ سید ازماں سعید کی دوکاریں ان کے فارم ہازو میںجلی ہوئی حالات میںپڑی ہیں۔ سید الزاماں کے بیٹے سلمان کا کہنا ہے کہ ’’پولیس اور مقامی آر ایس ایس کے لوگوں اس بربریت میںشامل ہیں‘‘۔

سلمان کے مطابق ’’جمعہ کی نماز کے بعد پرامن انداز میںاحتجاج کیاجارہا تھا۔ آر ایس ایس کے کچھ حامی پولیس کی مدد ان کے فارم ہاوز میں6بجے شام کے قریب داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ مچائی ‘‘۔مظفر نگر ٹائون میںان کے گھر سے فارم ہاوز محض 800میٹر کی دوری پر ہے۔انہو ںنے الزام عائد کیا ہے کہ آر ایس ایس کے مقامی حامیوں نے مسلم مظاہرین پر گولیاں برسائیں اور بعد میںان کے گھر وں پرتوڑ پھوڑ کی اور دوکانوں میںلوٹ مار مچائی ہے۔ سلمان نے کہاکہ ’’ ان کا اہم مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلا کر لوگوں کو دوبارہ منقسم کرنا ہے‘‘۔
فارم ہاوز پر خدمات انجام دینے والا گارڈ بھارت رام بھی کہہ رہا ہے کہ پولیس جوان فارم ہاوز میںداخل ہوئے اورتوڑ پھوڑ کے بعد گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور استبل میںجاکر گھوڑی کی ٹانگیں بھی توڑیں۔ایسے بے شمار واقعات او رسوشیل میڈیاپر گشت کررہے ویڈیوز اور فوٹوز سے یوپی انتظامیہ اور پولیس کے رویہ پر سوالیہ نشان کھڑے ہورہے ہیں۔ہندوستان کی تاریخ میںبے شمار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں اور منظم انداز میںمسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو جانی او رمالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ سال2002میں ہندوستان کی تاریخ سے سب سے ہولناک گجرات فسادات میںبھی راست طو ر پر ریاستی انتظامیہ اور پولیس کی ایسی ملی بھگت دیکھنے کو نہیںملی جو ریاست اترپردیش میں 12 ڈسمبر 2019 کے بعد سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سی اے اے‘ این آرسی او راب این پی پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے والے مسلمانوں کو بھاگا بھاگا کر پیٹا جارہا ہے ‘ ان کے املاک کو پولیس خود نشانہ بنارہی ہے ‘ مسلمانوں کے گھر میںزبردستی گھس کر لوٹ مار بھی مچائی جارہی ہے۔پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ عوامی املاک کی تباہی کے نام پر بھرپائی کی رقم کے لئے مبینہ احتجاجیوںکی جائیدادوں‘ دوکانوں کو ضبط کیاجارہا ہے۔ پچھلے ڈھائی سالوں میںجس طرح کے حالات ریاست اترپردیش میںپیدا کئے گئے ہے اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اترپردیش کو مسلمانوں کے لئے دوسرا گجرات بنانے کی پوری تیاری سرکاری مشنری اور بھگوا تنظیموں نے کرلی ہے۔مسلمانوں میںڈر او رخوف کاماحول پیدا کیاجارہا ہے ‘ انہیں اس بات کا احساس دلایاجارہا ہے کہ وہ دوسری درجہ کے شہری ہیں ۔ اترپردیش میں پہلے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں جس میںدومذہب کے لوگ آپس میںایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے تھے مگر یوگی ادتیہ ناتھ کے اس دور میں پولیس کی راست یا بالواسطہ نگرانی میں مسلمانو ں کو مجبور‘ بے بس اور لاچار بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔مگر ایسا کرنے والے اس بات کو فراموش کررہے ہیںکہ
زمانہ معترف ہے ہماری استقامت کا
نہ ہم نے شاخ ِ گل چھوڑا نہ ہم نے قافلہ بدلہ