سات مرحلوں میں رائے دہی ٹھیک نہیں

   

پی چدمبرم

سابق مرکزی وزیر داخلہ

ا

لیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے مجوزہ لوک سبھا انتخابات کا اعلامیہ اور شیڈول ( تواریخ ) کا اعلان جاریہ ہفتہ جاری کئے جانے کی توقع ہے ۔ ماض امیں لوک سبھا انتخابات کا جو شیڈول جاری کیا گیا تھا اُس پر اس لئے تنقید کی گئی تھی کیونکہ اُس وقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہمارے عزت مآب وزیراعظم کے اندرون ملک دوروں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ شیڈول جاری کیا گیا۔ بہرحال شیڈول معقول ہو یا معقولیت سے عاری بہت جلد اس کے بارے میں پتہ چل جائے گا ۔ اگر ہم انتخابات کیلئے کئے جانے والے انتظامات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں کئی خامیاں اور نقائص ہیں۔ سب سے پہلی خامی یا نقص رائے دہی کے مراحل سے متعلق ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو عام انتخابات کا صرف تین مرحلوں میں انعقاد عمل میں لایا جانا چاہئے ۔ تین مرحلوں سے زیادہ مرحلوں میں رائے دہی نہیں ہونی چاہئے جبکہ ایک ریاست میں ایک دن ہی رائے دہی کا انعقاد عمل میں لایا جانا چاہئے ۔ اگر ریاستیں بڑی ہوں تو پھر ایک نہیں بلکہ دو دن رائے دہی کروائی جاسکتی ہے ۔ سال 2019 ء میں ملک کی مختلف ریاستوں میں رائے دہی کی جو تاریخ اور مراحل کا اعلان کیا گیا تھا اس کے مطابق 11 اپریل تا 19 مئی یعنی 39 دنوں تک انتخابی عمل جاری رہا حالانکہ اس کی کسی بھی طرح ضرورت نہیں تھی ۔ بہار میں جہاں لوک سبھا کی 40 نشستیں ہیں 7 مراحل میں رائے دہی کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔ اسی طرح اُترپردیش میں (80 نشستوں ) ، مغربی بنگال میں ( 42 نشستوں ) کیلئے بھی سات مراحل میں رائے دہی منعقد کی گئی ۔ تاملناڈو اور پڈوچیری (39+1 ) میں جہاں بہار اور مغربی بنگال کی طرح ہی نشستوں کی تعداد ہے رائے دہی صرف ایک دن ہی مقرر کی جاتی ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں جہاں پارلیمانی حلقوں کی تعداد صرف 29 ہے آخر اس ریاست میں 4 مختلف تواریخ میں رائے دہی کیوں کروائی گئی ؟ جہاں تک اُترپردیش کا سوال ہے اس ریاست میں تاملناڈو سے دوگنی نشستیں ہیں پھر وہاں 7 مراحل میں رائے دہی کیوں ؟ جب رائے دہی کے مختلف مراحل میں کئے جانے پر اعتراض کیا جاتا ہے یا سوالات کئے جاتے ہیں تو اس کی وجہ سکیورٹی بتائی جاتی ہے اور یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ مسلح پولیس فورس کو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں منتقل کرنے اور انتظامات کیلئے تعینات کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے ۔ اس دلیل میں کوئی جان نہیں ہے کیونکہ جب انتخابات منعقد کروانے سے متعلق اعلان کیا جاتا ہے اس اعلان کے ساتھ ہی کسی بھی ریاست میں پولیس اور سی اے پی ایف کی تمام حلقوں میں تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے اور رائے دہی کے دن پہلے مرحلہ میں جن حلقوں میں رائے دہی ہوتی ہے تب دوسرے حلقوں میں انتخابی مہم کا سلسلہ جاری رہتا ہے ایسے میں وہاں پولیس اور CAPFs کو لا اینڈ آرڈر کی برقراری کیلئے تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رائے دہی کے پہلے اور بعد میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک حلقہ میں پولیس موجود نہ ہو ۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے مطابق بہار اور اُترپردیش میں ڈبل انجن سرکار ہے اور دونوں ریاستوں میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی بہتر ہے اگر ایسا ہے تو پھر ان ریاستوں میں تشدد کا کوئی بھی خدشہ کیوں ہونا چاہئے ؟ الیکشن کمیشن جو انتخابی شیڈول جاری کرتا ہے کہ رائے دہی کئی مراحل میں ہوگی اس کے بارے میں شبہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کے قائدین کو مختلف ریاستوں میں مہم چلانے اور ایک ریاست سے دوسری ریاست آنے جانے میں سہولت ہوسکے ۔ تاہم کئی مراحل میں رائے دہی کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اگر رائے دہی کی تواریخ مختلف ہوں تو پھر Silent Periods بھی مختلف ہوتے ہیں اور حلقہ A میں خودساختہ Silent days اور رائے دہی ہو تو اسی دن مخصوص لیڈر پڑوسی پارلیمانی حلقہ B میں مہم چلاتا ہے اور پھر اس کی تقریر ٹی وی ، ریڈیو ، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پارلیمانی حلقہ A کے رائے دہندوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کئی مراحل کی رائے دہی ، مابعد رائے دہی جائزوں ( مرحلہ I کے امکانی نتائج سے متعلق )کے یقینا مرحلہ II اور مابقی مرحلوں میں اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اکثر ریاستوں میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے چیف الیکٹورل آفیسرس کے بارے میں یہ شکایات عام ہیں کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مختلف امیدواروں کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کرتے ہیں اور امتیاز پر مبنی قواعد کا اطلاق عمل میں لاتے ہیں ۔ مثال کے طورپر جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو میں 2019 ء میں عام انتخابات میں چیف الیکٹورل آفیسر نے پوسٹروں ، فلیکس بورڈس ، بیانرس وغیرہ کے ٹاؤن ، پنچایتوں اور بلدیات میں چسپاں کرنے یا لگانے پر پابندی عائد کردی تھی ۔ اس نے امیدواروں کو فی کس دن میں صرف ایک روڈ شو منعقد کرنے کی اجازت دی ۔ سی ای او نے ان مقامات کو بھی محدود کردیا تھا جہاں امیدوار رائے دہندوں سے مخاطب کرنے والے تھے ۔ ٹاملناڈو کے عوام کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ دوسری ریاستوں کے ٹاؤنس اور شہروں میں پوسٹرس چسپاں کرنے اور بیانرس ، فلیکس وغیرہ لگانے کی اجازت دی گئی یہاں تک کہ کئی ایک روڈ شوز منعقد کرنے کی بھی اجازت دی گئی ۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ امیدوار کے ساتھ کئی گاڑیوں کی اجازت دی گئی ۔ بہرحال الیکشن کمیشن آف انڈیا کو امتیازی رویہ ختم کرنا چاہئے اور تمام امیدواروں اور تمام ریاستوں کے لئے یکساں اُصول و ضوابط نافذ کرنے چاہئے ۔ اگر الیکشن کمیشن کسی ریاست میں امیدواروں پر انتخابی مہم چلانے کیلئے متعدد تحدیدات عائد کرتا ہے اور کسی ریاست میں امیدواروں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہوریت کی جو خوبصورتی ہے وہ متاثر ہوجاتی ہے کیونکہ انتخابات جمہوریت کا تہوار ہوتے ہیں لیکن 2019 ء میں خاص طورپر ٹاملناڈو میں انتخابی مہم پر الیکشن آف انڈیا کی پابندیوں کے نتیجہ میں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی کی موت کا سوگ منایا جارہا ہو ۔ شفاف و منصفانہ انتخابات کا اہتمام الیکشن کمیشن آف انڈیا کا فرضی ہے جسے اسے بخوبی نبھانا چاہئے۔ کئی مراحل میں رائے دہی دیکھا جائے تو عوام کے ذہنوں میں کئی شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ سارے ملک میں سات مرحلوں کے بجائے صرف تین مرحلوں میں رائے دہی کا انعقاد عمل میں لائے۔