ساز و آواز کے جادو کو کہاں ڈھونڈنے جائیں

   

سید امتیاز الدین
ابھی دلیپ کمار کی جدائی کا زخم تازہ تھا کہ سنگیت کی ملکہ لتا منگیشکر بھی اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ نہ اداکاری میں دلیپ کمار کا جواب تھا اور نہ موسیقی میں لتا منگیشکر کا کوئی ثانی۔ جس طرح مصر کی شناخت مشہور گلوکارہ ام کلثوم سے تھی۔ اسی طرح ہندوستان کی پہچان لتا منگیشکر سے ہے۔ لتا کو کئی اعزازات سے نوازا گیا کیونکہ وہ ہر اعزاز سے بلند تھی۔ پہلے ان کو پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ پھر وہ پدم وبھوشن سے سرفراز ہوئیں اور بالآخر ان کو بھارت رتن سے نوازا گیا جو ہمارے ملک کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ لتا منگیشکر میں انکساری اتنی تھی کہ وہ سربلندی کے باوجود سرجھکائے رہنا پسند کرتی تھیں۔
لتاجی 28 ستمبر 1929ء کو اندور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ہردے ناتھ منگیشکر خود بھی بہت بڑے ماہر موسیقی تھے لیکن خود انہیں پتہ نہیں تھا کہ ان کی بیٹی ان سے کہیں بلند مقام تک پہنچنے والی ہے۔ لتاجی کہتی تھیں کہ بیرونی اثرات نے مجھے گلوکارہ نہیں بنایا۔ موسیقی میرے اندور موجزن تھی۔ لتا نے کلاسیکل سنگیت اپنے باپ سے سیکھا۔ وہ مشکل راگ راگینوں کو نہایت مہارت سے دلوں کو چھو لینے والی طرزوں میں تبدیل کردیتی تھیں۔ لتا کی غیرمعمولی صلاحیتوں کو سب سے پہلے میوزک ڈائریکٹر غلام حیدر نے پہچانا۔ انہوں نے لتا کی خاطر ایس مکھرجی کی ناراضگی مول لی جنہوں نے یہ کہہ کر لتا کو ناپسند کیا تھا کہ ان کی آواز بہت باریک ہے۔ غلام حیدر نے لتا منگیشکر کو بمبئی ٹاکیز سے متعارف کرایا۔ اس طرح لتا منگیشکر ان کی دُھن پر ’مجبور‘ نامی فلم میں ایک گانا، دل میرا تو رویا گایا جو بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد 1949ء میں ’محل‘ ریلیز ہوئی جس کا گانا (آئے گا آنے والا) غیرمعمولی مقبولیت کا شاہکار بن گیا۔ ریکارڈ چونکہ ابھرتی ہوئی گلوکارہ کا تھا، اس لئے ان کا نام ریکارڈ پر لکھا ہوا نہیں تھا۔ ریڈیو اسٹیشن اور گراموفون کمپنیوں کو شائقین کے سینکڑوں فون آنے لگے کہ اس گلوکارہ کا نام بتایئے۔ اس زمانے میں نور جہاں اور ثریا، لتا کی ہم عصر تھیں۔ نور جہاں پاکستان چلی گئیں اور رفتہ رفتہ ثریا کی مقبولیت بھی ماند پڑگئی۔ اس کے بعد تو لتا کی مقبولیت آسمان کو چھونے لگی۔ یکم مئی 1960ء کو مہاراشٹرا ریاست بنی تو لتا منگیشکر کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا کہ وہ اس موقع پر ایک مراٹھی دعائیہ نغمہ پیش کریں۔ تین سال کے بعد لتا منگیشکر نے ہند ۔ چین جنگ کے بعد فوجیوں کی امداد کیلئے جو کنسرٹ پیش کیا۔ اس میں ائے میرے وطن کے لوگو ذرا آنکھ میں بھرلو پانی جو شہید ہوئے ہیں، اُن کی ذرا یاد کرو قربانی گایا۔ یہ نغمہ اتنا متاثرکن تھا کہ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے لتا سے کہا بیٹی! آج تم نے مجھے رُلادیا۔
موسیقی میں لتا منگیشکر کی مہارت بے مثال تھی۔ استاد بڑے غلام علی خاں نے لتا کی گائیکی سن کر کہا تھا کہ ہم جیسے موسیقی کے استاد فن کی تمام باریکیوں کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹوں کی کوششوں کے بعد جو بات پیدا کرسکتے ہیں، وہ لتا 3 منٹ میں کر دکھاتی ہیں۔ فلم ’’شباب‘‘ کا مسحورکن نغمہ ’’چندن کا پلنا ریشم کی ڈوری‘‘ جو راگ پیلو پر بنایا گیا تھا لتا نے نوشاد کی دھن پر اس خوبصورتی سے پیش کیا تھا کہ آج بھی اسے سن کر نیند آنے لگتی ہے۔ اس وقت لتا کی عمر بمشکل 24 سال تھی۔ اسی طرح جئے دیو کی دھن پر لتا کا گایا ہوا بھجن نہ صرف اس کی خوبصورت دھن ، اس کی ادائی کیلئے ہمیشہ یاد رہے گا بلکہ امن ، بھائی چارہ، اتحاد اور سلامتی کا نقیب بن کر لاکھوں دلوں کی آواز رہے گا۔ (اللہ تیرو نام، ایشور تیرو نام) لتا منگیشکر یوں تو مہاراشٹرین تھیں لیکن ہندوستان کا ہر شہر ان کا شہر تھا اور ہر شہری ان کا اپنا تھا۔ لتا جی دوبار حیدرآباد آئی تھیں۔ پہلی بار ہند ۔ چین جنگ کے شہیدوں کی امداد کے لئے فنڈس جمع کرنے کے لئے اور دوسری بار 2002ء میں۔ حیدرآباد کی دو چیزیں انہیں بہت پسند تھیں۔ چارمینار اور لاڈ بازار اور اس کی نازک اور خوبصورت، چوڑیاں۔
ہمارے لئے یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ اُردو سے بھی لتا کو لگاؤ تھا۔ تلفظ کی صحت اور اہل زبان کی طرح ادائیگی کے لئے انہوں نے ایک مولوی کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔ (استاد امانت علی خاں مانے ہوئے گلوکار تھے) سے بھی انہوں نے اکتساب فیض کیا تھا۔ جہاں تک لتا منگیشکر کے جانے کا دکھ ہے۔ وہیں اس بات کا فخر ہے کہ ہم نے لتا جی کا زمانہ پایا۔ اُن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، کانوں سے سنا کیونکہ اب لتا صرف گوشت پوست کی خاتون نہیں رہیں۔ ہماری قومی تاریخ بلکہ دنیا کی تاریخ کا اہم باب بن گئی ہیں۔