سب تاج اچھالے جائیں گے ؟

   

محمد مصطفی علی سروری
جنوری کی 5؍ تاریخ کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ قائدین اور اساتذہ پر جان لیوا حملہ نے ملک گیر سطح پر طلبہ برادری کے احتجاج کو ایک نئی توانائی فراہم کردی ہے۔ CAA کی منظوری کے بعد سے ہی طلبہ برادری کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد احتجاج پر اتر آئی ہے۔ 15؍ دسمبر 2019ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولیس کی پر تشدد کارروائی سے یہ احتجاج ملک گیر سطح پرپھیل گیا تھا۔ ملک کے ہر بڑے شہر، قصبے، گائوں دیہات کی عوام نے بلا کسی مذہبی، لسانی، اور علاقائی تعصب کے دستور کے تحفظ کا نعرہ بلند کیا۔
5؍ جنوری کو جس طریقہ سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر نقاب پوش غنڈہ عناصر نے حملہ کیا۔ اس سے ملک کی تقریباً سبھی یونیورسٹیوں میں طلبہ برادری نے ناراضگی کا اظہار کیا اور طلبہ برادری کے احتجاج سے دیگر شہریوں کو بھی دستور کے تحفظ کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے کی ترغیب مل رہی ہے۔قارئین ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ CAA، NCR اور NPR کے موضوع پر جس شدت کے ساتھ او رجس توانائی کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں سارا ملک گویا فیض احمد فیض کے مصرعہ
ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے
کی عملی تفسیر بن چکا ہے۔
جے این یو کی اسٹوڈنٹ یونین صدر اشی گھوش کو 5؍ جنوری کی شام حملہ کا نشانہ بنایا گیا تو خاتون ریسرچ اسکالر کا سر پھٹ گیا اور پانچ ٹانکے لگے۔ مغربی بنگال کے درگاپور علاقے سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی نے اگلے دن پریس کانفرنس کے ذریعہ اعلان کیا کہ وہ اپنی لڑائی جاری رکھے گی۔ اشی کے والد دیباشیش گھوش نے اخبار ٹیلیگراف کو بتلایا کہ مجھے اپنی لڑکی کے بارے میں اطمینان ہے کہ وہ حق کے لیے پر امن لڑائی کرنے والی لڑکی ہے۔ اس کو غنڈوں کے حملوں سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔ اشی گھوش کی ماں نے بھی بڑے فخر سے اخبار کو بتلایا کہ ’’ہاں مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے۔‘‘ (بحوالہ اخبار ٹیلیگراف۔ 7؍ جنوری 2020)
قارئین اب میں اپنے اس موضوع کی طرف لوٹ آتا ہوں کہ شہر حیدرآباد میں CAA پر عوامی احتجاج ہو یا شاہین باغ دہلی کا احتجاج۔ ہر جگہ ایک نعرہ مشترک تھا ۔ یہ وہی نعرہ ہے جو 3؍ مارچ 2016 کو جے این یو کے اس وقت کے اسٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار نے لگایا تھا۔ جی ہاں نفرت سے ذات پات کے امتیاز سے آزادی کا نعرہ اس وقت تو اس نعرہ کو سن کر سب نے نظر انداز کردیا لیکن آج تقریباً چار برس بعد وہی نعرہ ہندوستانیوں کو اپنے جذبات کے اظہار میں مدد کر رہا ہے۔
آیئے اب اصل سوال کی طرف لوٹ آتا ہوں کہ آج جو لڑائی ہندوستان کی یونیورسٹی کے طلبہ لڑ رہے ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ کون ہیں۔ یہ جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ چار برس پہلے ہی ان طلبہ نے آنے والے حالات کا اندازہ کرلیا تھا۔ تبھی تو ان کا لگایا نعرہ یونیورسٹی سے نکل کر آج عوام میں بچے بچے کی زبان پر گونج رہا ہے۔جے این یومیں کتنے مسلم طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ کیا کسی مسلم ادارے، انجمن یا NGO نے اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی؟ کیا مسلمانوں کو جے این یو جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں؟ سال 2016 میں قانونِ حق معلومات کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جے این یو کے چیف پبلک انفارمیشن آفیسر نے بتلایا تھا کہ جے این یو میں تعلیمی سال 2015-16 کے دوران انڈر گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور ریسرچ کے پروگراموں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی جملہ تعداد 2184 تھی۔ ان میں درج فہرست ذاتوں کے 319 طلبہ، درج فہرست قبائل کی تعداد 187، دیگر پسماندہ طبقات کے 737 طلبہ، جسمانی معذورین کے زمرے میں داخلہ لینے والوں کی تعداد 56 اور 961 طلبہ جنرل زمرے میں شامل تھے۔ جے این یو میں مسلمان طلبہ کی تعداد کے سوال پر یونیورسٹی نے کوئی واضح جواب نہیں دیا تھا۔ صرف جے این یو ہی نہیں بلکہ خود شہر حیدرآباد کی ایک سنٹرل یونیورسٹی، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی بھی ہے جہاں پر بھی سال 2016ء کے دوران قانون حق معلومات کے تحت پوچھے گئے سوال کہ یہاں کتنے مسلم طلبہ پڑھتے ہیں تو انہوں نے بھی اس سوال کا جواب نہیں دیا اور صرف یہ بتلایا کہ تعلیمی سال 2015-16 کے دوران ان کے ہاں درج رجسٹرڈ جملہ طلبہ کی تعداد 5089 ہے۔ جن میں SC شیڈولڈ کاسٹ کے طلبہ کی تعداد 928، ایس ٹی شیڈیولڈ ٹرائب طلبہ کی تعداد 471 اور دیگر پسماندہ طبقات (OBC) کے طلبہ کی تعداد 1720 بتلائی گئی تھی۔

انگلش اینڈ فارن لینگویجس سنٹرل یونیورسٹی بھی شہر حیدرآباد میں واقع ہے۔ سال 2017ء میں قانون حق معلومات کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں (EFLU) کے چیف پبلک انفارمیشن آفیسر نے بتلایا کہ تعلیمی سال 2015-16 کے دوران یونیورسٹی میں 436 طلبہ نے داخلہ لیا۔ جن میں 63 طلبہ SC طبقے سے ST طبقے تعلق رکھنے والے 51 اور OBC طبقے سے تعلق رکھنے والے 115 طلبہ اور 50 طلبہ مسلم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اس سنٹرل یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔نلسار یونیورسٹی آف لاء حیدرآباد کا ہی ایک باوقار ادارہ ہے۔ اس ادارے سے بھی قانون حق معلومات کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتلایا گیا کہ تعلیمی سال 2015-16 کے دوران ریگولر تعلیمی پروگراموں میں جملہ 570 طلبہ کو داخلہ دیا گیا جس میں سے 74 ایس سی طبقے سے 31 یس ٹی اور51 OBC طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور نلسار میں کتنے مسلم طلبہ نے داخلہ لیا اس سول پر جواب دیا گیا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبہ کا مذہبی بنیادوں پر ڈاٹا نہیں رکھا جاتا ہے۔
قارئین یہ تو تقریباً چار برس پہلے قانون حق معلومات RTI ایکٹ کے تحت پوچھے گئے سوالات کے جوابات تھے۔ لیکن ہر نئے تعلیمی سال کے آغاز میں ان یونیورسٹیوں میں کم و بیش اتنے ہی طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔ کیا چار برسوں کے دوران زمینی صورتحال تبدیل ہوئی ہوگی۔ کیا مسلمانوں کو اس حوالے سے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلے چار دہائیوں کے دوران مسلمانوں نے بہت سارے پروگرامس بنائے۔ کے جی سے لے کر پی جی تک کے تعلیمی اداروں کا جال بچھایا گیا۔ IIT میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے منصوبے بنائے گئے۔ مسلم ڈاکٹرس کی تعداد بڑھانے کی اسکیمات روشناس کروائی گئیں۔ آج مسلمانوں کی پسند مسلم محلوں کے گھر، مسلم بچوں کی تعلیم، مسلم انتظامیہ اسکول، کالجس میں مسلمانوں کی پروفیشنل تعلیم بھی مسلم مینجمنٹ پروفیشنل کالجس میں مسلمانوں کو روزگار کے لیے بھی مسلم ممالک پر نظر۔ مسلمان اگر یہ محسوس کرتا ہے کہ آج ملک میں اس کو دوسرے درجے کے شہری بنانے کی تیاری کی جارہی ہے، دستور کی سیکولر روح کو مجروح کرتے ہوئے مذہب کی بنیادوں پر امتیاز برتا جارہا ہے تو مسلم دانشور اور ملی قائدین کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ مسلمانوں کو آج ڈاکٹرس اور انجینئرس سے زیادہ سماجی علوم کے ماہرین اور سوشیل سائنٹسٹ کی ضرورت ہے۔ جو ہندوستانی مسلمانوں کی رہبری کرسکیں اور اس بات کو واضح کرسکیں گے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے حق کی لڑائی اسی وقت مؤثر طریقہ سے لڑ سکتا ہے جب وہ ملک کے دیگر پسماندہ طبقات کے ان مسائل کو سمجھیں جو مشترک ہیں اور ان حربوں اور سازشوں کا برقت پتہ لگاسکیں جو ہندوستانیوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
RSS کی شکایت کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس تنظیم نے اپنے نظریات کی تبلیغ کے لیے تعلیم کو ہتھیار بنایا۔ شہروں میں ہی نہیں گائوں، دیہات میں اسکولوں کا جال بچھایا اور مسلمانوں نے صرف اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی۔ مسلم پروفیشنل کالجس کا ایسا نیٹ ورک کھولا جہاں مسلم اکثریت ہی پڑھتی ہے۔ نہ تو اسکولی تعلیم کے دوران مسلم بچہ دیگر ہندوستانی طبقات سے رابطہ میں آتا ہے اور نہ ہی ان کی پسماندگی کو سمجھ پاتا ہے اور نہ مسلم نوجوان دیگر ہندوستانی طبقات کے ساتھ عملی اور شہری زندگی میں رابطہ رکھتا ہے۔
سال 2006 میں پیش کردہ سچر کمیٹی رپورٹ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مسلمان تعلیمی، سماجی اور معاشی طور پر ملک کے دیگر پسماندہ طبقات SC اور ST سے بھی بدتر ہیںیعنی ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل SC اور ST طبقات کی طرح ہی ہیں۔اگر مسلمان ان طبقات کے ساتھ مل کر حق اور انصاف کے لیے تعلیم اور مساوات کے لیے جنگ کرتے ہیں تو فتح یقینی ہے۔شائد فیض احمد فیض نے ایسے ہی کسی اتحاد کی صورت میں یہ پیش قیاسی کی تھی۔
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پائوں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑ کے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑ کے گی
ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com