سقوط ِدکن پر بی جے پی کا سیاسی کھیل

   

کانجا ایلیا
انڈین یونین میں حیدرآباد کے انضمام پر سیاست زوروں پر ہے اور خاص طور پر جاریہ سال اس قسم کی سیاست میں غیرمعمولی شدت آئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے 17 ستمبر کو سرکاری طور پر ’’حیدرآباد لبریشن ڈے‘‘ (حیدرآباد کی آزادی کا دن) منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی زیرقیادت تلنگانہ حکومت 17 ستمبر کو یوم قومی یکجہتی منانے کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی اپنے اعلان اور مرکزی حکومت کے فیصلے کے ذریعہ شاید ، حیدرآباد کے آخری نظام نواب میر عثمان علی خاں کی بادشاہت سے آزادی کا اشارہ یا حوالہ دے رہی ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ آر ایس ایس ۔ بی جے پی نظام کی حکمرانی کو صرف ایک بادشاہت کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ اسے ہندوؤں پر مسلمانوں کی حکمرانی کے طور پر دیکھتی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے یوم قومی یکجہتی منانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ دراصل اس معاملے میں مرکز کی جارحانہ مسلم دشمنی سے متعلق موقف کا جواب ہے۔ ان کا یہ اقدام اس لئے بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ چندر شیکھر راؤ ایک قومی لیڈر کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ حالیہ عرصہ کے دوران مختلف اپوزیشن لیڈروں بشمول چیف منسٹر بہار نتیش کمار اور حیدرآباد میں کسان لیڈروں سے ان کی ملاقاتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ کے سی آر نے ملک میں کسانوں سے کی جارہی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا اعلان کیا ہے اور انہوں نے یہاں تک اعلان کیا کہ 2024ء کے عام انتخابات میں غیربی جے پی غیرکانگریس اتحاد کو کامیابی ملتی ہے تو مرکز میں کسانوں کی حکومت ہوگی۔ کسانوں کا اقتدار ہوگا۔ ایک طرف بی جے پی 17 ستمبر کو ’’لبریشن ڈے‘‘ کا اعلان کرچکی ہے اور ٹی آر ایس حکومت یوم قومی یکجہتی منانے کا فیصلہ کرچکی ہے، دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ۔ مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) ہیں جنہوں نے 17 ستمبر کو ورودھی ڈے (یوم دغا) قرار دیا ہے لیکن دونوں کمیونسٹ جماعتیں مکمل طور پر حاشیہ پر آچکی ہیں۔ کمیونسٹ جماعتوں کے خیال میں انڈین یونین میں ریاست حیدرآباد دکن کا انضمام دراصل ان کی مصلح جدوجہد کو کچلنے کیلئے کیا گیا۔
آخر انضمام پر بحث کیوں ضروری ہے
جوناگڈھ ریاست انڈین یونین میں ضم ہونے والی آخری ریاست ہے۔ انضمام کے وقت اس ریاست میں کافی بے چینی دیکھی گئی کیونکہ اس ریاست پر مسلم حکمراں محمد مہتاب خان جی سوم کی حکومت تھی اور جنہوں نے پہلے ہی پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور پاکستان روانہ ہوچکے تھے اور وہیں بس بھی گئے لیکن آر ایس ایس ۔ بی جے پی کسی بھی طرح جوناگڑھ کی بات نہیں کرتے۔ صرف حیدرآباد دکن کے انضمام کو حیدرآباد کی آزادی قرار دے کر ہر سال 17 ستمبر کو اس کا جشن منانے پر زور دیتے ہیں۔ وہ اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں جو اس وقت نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے عہدوں پر فائز تھے۔ حیدرآباد کو انڈین یونین میں فوجی کارروائی کے ذریعہ شامل کیا گیا لیکن اس موضوع پر مکمل بحث ہونی چاہئے اور خاص طور پر اس بات پر بحث کرنی چاہئے کہ آخر 17 ستمبر 1948ء کو حیدرآباد اور اس سے پہلے کشمیر کا انضمام کیسے عمل میں آیا کیونکہ انڈین یونین میں ضم کی جانے والی کسی بھی نوابی ریاست کو نہیں چھوڑا گیا۔ کسی نہ کسی طرح ان کا انضمام عمل میں آیا۔ واضح رہے کہ کشمیر اور حیدرآباد دکن آزاد رہنے کے خواہاں تھے جبکہ جوناگڑھ کے حکمراں پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ مابقی دیسی ریاستیں سردار ولبھ بھائی پٹیل اوروی پی مینن کی سفارتی گفت و شنید یا بات چیت کے ذریعہ انڈین یونین میں ضم ہوچکی تھیں۔ مسٹر وی پی مینن وزارت داخلہ میں سیکریٹری کے عہدہ پر فائز تھے اور بات چیت و مشاورت کی غیرمعمولی صلاحیتوں کیلئے شہرت رکھتے تھے۔ جہاں تک ریاست کشمیر کا سوال ہے، وہ ایک ایسی مسلم اکثریتی ریاست تھی جس پر ایک ہندو راجہ حکمرانی کرتا تھا۔ اس طرح حیدرآباد ایک ہندو اکثریتی ریاست تھی جس پر مسلم حکمراں کی حکمرانی تھی۔مغربی پاکستان کی تقسیم یا علیحدگی کے بعد کانگریس حیدرآباد اور کشمیر کو کسی بھی طرح انڈین یونین میں ضم کرنے سے متعلق بہت سنجیدہ تھی۔ وہ کسی بھی طرح ہندوستان کے ساتھ ایک آزاد ریاست کا کوئی آئیڈیا رکھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس لئے نہرو ۔ پٹیل حکومت ان دونوں ریاستوں کو انڈین یونین میں طاقت کے ذریعہ ضم کرنے بالکل تیار تھے کیونکہ ان خیال میں ان ریاستوں کے ہندوستان میں انضمام سے ہی ہندوستان ایک مقتدر اعلیٰ اور آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آئے گا۔ جہاں تک حیدرآباد کا سوال ہے، وہ مرکز کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا اور حیدرآباد کو ہر حال میں انڈین یونین میں ضم کرنے نہرو اور پٹیل بہت سنجیدہ تھے۔ اگر حیدرآباد اسٹیٹ کو ہندوستان میں ضم نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب ہندوستان آج بالکل مختلف ہوتا۔ آر ایس ایس بھی حیدرآباد کو انڈین یونین میں ضم کرنے کی وکالت کرتی رہی جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اسے مسلح جدوجہد کا تجرباتی اڈہ بنایا۔ آر ایس ایس نے حیدرآباد کو ایک مسلم اسٹیٹ کے طور پر دیکھا اور اس لئے اس نے حیدرآباد کے آزاد مملکت رہنے یا آزاد مملکت کے درجہ کی مخالفت کی لیکن ان دنوں آر ایس ایس زیادہ طاقتور نہیں تھی کہ اپنے مطالبات منواتی، اس کی قوم پرستی کا مرکز ’’مسلم دشمنی‘‘ کے خیالات ہی تھے اور اس نے مہم چلانے کیلئے ایک نیٹ ورک قائم کرلیا تھا ۔ اس کے باوجود اس کا زیادہ اثر نہیں تھا۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے، کانگریس جانتی تھی کہ ہندوستان ایک بہتر حکمرانی کی حامل متحدہ مملکت ہے اور وہ انڈین یونین میں حیدرآباد کے انضمام سے ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حیدرآباد کو ہندوستان میں ضم کرنے کیلئے جو فوجی کارروائی شروع کی گئی وہ پولیس ایکشن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مرکزی حکومت کو کشمیر، جوناگڑھ اور حیدرآباد میں طاقت کا استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی جو بے شمار اموات اور دل دہلا دینے والے مظالم کا باعث بنے۔
تقسیم کو گہرا کرنا
ایک طویل عرصہ تک جھجک کے بعد تلنگانہ راشٹرا سمیتی (TRS) نے مناسب انداز میں اور سلجھا ہوا موقف اختیار کیا کیونکہ بی جے پی ۔ آر ایس ایس اسے آئندہ چند برسوں کیلئے ایک فرقہ وارانہ مسئلہ میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اب اس معاملے میں 2023 کے اسمبلی انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرکزی حکومت بھی کود پڑی۔ انضمام اور آزادی کے درمیان جو سب سے اہم فرق ہے وہ طریقہ کار ہے جسے بی جے پی ، آر ایس ایس اور مرکز نے اپنایا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ریاست تلنگانہ کی 15% مسلم آبادی کو نشانہ بناکر انہیں الگ تھلگ کرکے ہراساں کیا جائے۔ قومی سطح پر حکمراں جماعت جسے اکثریت حاصل ہے، اس مسئلہ پر بہت زیادہ کام کررہی ہے۔ بہت زیادہ محنت کررہی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح نہیں چاہتی کہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات میں سردار پٹیل کا ایک دیوہیکل مجسمہ نصب کیا اور اسے ’’مجسمہ اتحاد‘‘ کا نام دیا کیونکہ سردار پٹیل نے جوناگڑھ، حیدرآباد اور کشمیر کے انڈین یونین میں انضمام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے سردار پٹیل کے مجسمہ کو ’’مجسمہ آزادی‘‘ کا نام کیوں نہیں دیا؟ سردار پٹیل کی بڑائی مذکورہ تینوں ریاستوں کے انڈین یونین میں انضمام میں پوشیدہ ہے۔ اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد سردار پٹیل نے ہی آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی تھی، اس کے باوجود آر ایس ایس۔ بی جے پی، پٹیل کی ستائش کرتے ہیں اور ان تنظیموں نے شاید اپنی سیاسی مجبوریوں کے تحت پٹیل کو اپنا آئیکن بنالیا ہے۔ سردار پٹیل، شدرا زرعی پس منظر رکھنے والے ایک بلند قامت لیڈر تھے اور ان کی خاندانی سیاسی وراثت بھی نہیں تھی۔ ان کی بہ نسبت پنڈت جواہر لال نہرو کے ۔ اس لئے سنگھ پریوار کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں غلطیوں کا سارا بوجھ پنڈت نہرو پر ڈال دیتے ہیں۔
اب یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ تلنگانہ کے تعلق سے خصوصی زبان کیوں استعمال کرتے ہیں اور اس ریاست میں مذہبی تنازعہ پیدا کرنے کے خواہاں کیوں ہیں؟ تلنگانہ کے عوام اور سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ 17 ستمبر کو یوم قومی یکجہتی منائیں تاکہ اس مسئلہ پر جس طرح فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کوشش کو دفن کردیا جائے۔
حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام سے متعلق معاہدہ پر دستخط کے بعد میر عثمان علی خاں اور سردار پٹیل کی وہ تصویر کافی مقبول ہوئی جس میں دونوں کو ایک ساتھ چلتے ہوئے قدم آگے بڑھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ معاہدہ حیدرآباد کی سرزمین پر ہی انجام پایا تھا۔ وہ تصویر شہر کے مختلف مقامات پر اور سوشیل میڈیا پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ نواب میر عثمان علی خاں جوناگڑھ کے حکمراں کی طرح پاکستان منتقل نہیں ہوئے بلکہ وہ اپنی آخری سانس تک حیدرآباد میں ہی رہے۔ انہوں نے اپنی اکثر خاندانی دولت انڈین یونین کو دے دی جس میں ویلی میں واقع مشہور و معروف حیدرآباد ہاؤز بھی شامل ہے۔ اس قدر فراخدلی کے باوجود اس خود ساختہ امرت کال میں 75 سال کے بعد نواب میر عثمان علی خاں اور مسلمانوں کو گالیاں کیوں؟
ہندوستانی عوام نے یقینا یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ماضی کے زخموں کو فراموش کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مصلحت پسندی کو اہمیت دیتے ہیں تاکہ پرامن زندگی گذار سکیں اور بی جے پی جو کچھ کررہی ہے، ایک قومی پارٹی ایسا نہیں کرسکتی۔قوم پرستی یہ نہیں کہ ماقبل آزادی زخموں کو کریدا جائے اور اس پر نمک چھڑکا جائے۔ قوم پرستی یہ بھی نہیں کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جائے۔