سلی ڈیلس۔ مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کے لئے 30ٹوئٹر ہینڈلس کاغلط استعمال ہوا ہے۔ پولیس

,

   

جب انہیں اس بات کا احساس ہوگیاکہ ہندو ازم میں گرواٹ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کر پارہے تو انہوں نے وی پی این کا استعمال کرتے ہوئے مختلف نامعلوم ٹوئٹر ہینڈلس تشکیل دئے تاکہ اپنی شناخت کوپوشیدرکھتے ہوئے انٹرنٹ کااستعمال کرسکیں۔


نئی دہلی۔دہلی پولیس کی جانکاری کے بموجب مذکورہ ’سلی ڈیلس‘ معاملے پر جانکاری تحقیقات میں اس بات کاانکشاف ہوا ہے کہ 30کے قریب ایسے ٹوئٹر ہینڈل ہیں جن کا بیجا استعمال مسلم خواتین کی چھیڑ والی تصویریں مبینہ ’نیلامی“ کے پوسٹ کرنے میں ہوا ہے۔

ایک عہدیدار نے کہاکہ اندورکا 26سالہ نوجوان اومکریشوار ٹھاکر بھی جس کا حصہ تھا اس گروپ کے ممبرس کی شناخت کرنے کی دہلی پولیس کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ٹھاکر نے اپنے فون اور لیاپ ٹاپ کے مواد جو نیراج بشنوائی کے ساتھ تھا مٹادیاہے‘ نیراج ’بلی بائی‘ ایپ کا خالق ہے جس کو آسام سے دہلی پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ دونوں کے لیاپ ٹاپ اور فونس تمام حذف مواد اورتفصیلات کی بازیابی کے لئے فارنسک سائنس لیاپ کو بھیج دئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وہیں فارنسک لیاب رپورٹ کے انتظار کے دوران مذکورہ پولیس کوشش کررہی ہے کہ ٹوئٹر ہینڈلس کا غلط استعمال کرنے والے گروپ کے دیگر ممبرس کی تلاش کی جاسکے۔

ملزم ٹھاکر جس نے مبینہ طور پرمذکورہ توہین پر مشتمل ایپ تیار کی تھا جس میں مسلم خواتین کو نشانہ بنایاگیا ہے‘ مدھیہ پردیش کے اندور سے ہفتہ کی رات کو گرفتار کرلیاگیاہے۔

تفتیش پر ٹھاکر نے انکشاف کیاہے کہ وہ ایک ”انٹرورٹ‘‘ ہے جو امریکہ سے آنے والے کلائنٹس کے ساتھ اپنا خود کا ایک ویب ڈائزئینگ ادارہ چلاتا ہے۔

ایک سینئر افیسر نے کہاکہ جب ٹھاکر کے والد سے پوچھ تاچھ کی گئی تو انہوں نے تحقیقات کرنے والوں کو بتایا کہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں کیونکہ ٹھاکر دن بھر سوتا ہ اور رات کے وقت میں کام کرتا ہے۔

مذکورہ افیسر نے کہاکہ جب رات بھر کام کرنے کے متعلق والدین سے پوچھا گیاتو ان کے دماغ میں ہندوستان او رامریکہ کے مابین وقت کا فرق ہے اور اسی وجہہ سے وہ رات بھر کام کرتا ہے‘ او ریہی وجہہ تھا کہ والدین کواس پر کوئی شبہ نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگرچکہ اپنی سرگرمیوں کو ٹھاکر او ربشنوائی دونوں کو کوئی ندامت نہیں ہے مگر ٹھاکر نے اس بات کی دکھ کا اظہار کیاہے کہ اس کی وجہہ سے گھر والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

پولیس کا کہناہے کہ یہ ملزمین ایک روایتی گروپ کا حصہ تھے جہاں پر قدیم روایت‘ ہندومذہب کے عروج وزوال پر بات ہوتی تھی۔

جب انہیں اس بات کا احساس ہوگیاکہ ہندو ازم میں گرواٹ کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کر پارہے تو انہوں نے وی پی این کا استعمال کرتے ہوئے مختلف نامعلوم ٹوئٹر ہینڈلس تشکیل دئے تاکہ اپنی شناخت کوپوشیدرکھتے ہوئے انٹرنٹ کااستعمال کرسکیں۔