سماجی دوری

   

راہ صبر و رضا کے ساتھ چلو
دل میں یاد خدا کے ساتھ چلو
سماجی دوری
عوام کی خاطر حکومتوں نے سماجی دوری یا فرد سے فرد کے درمیان فاصلہ پیدا کرتے ہوئے مہلک وباء کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ عوام الناس کو دانشمندی ، صحت پسندی اور عقلمندی کے ساتھ وائرس سے لڑنے اور خود کو بچانے کے لئے الگ تھلگ رہنے کی ضرورت ہے۔ گھروں میں خود کو بند کرکے وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کی جاسکتی ہے۔ اتوار کے ’ جنتا کرفیو ‘ کے وقت بھرپور تعاون کرنے والے ہندوستانیوں نے بعد کے دنوں میں لاک ڈاؤن کی سنگین خلاف ورزیاں شروع کردی ہیں جس کے بعد حکام کو مجبوراً کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ شہریوں کی صحت کے لئے ہی حکام نے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل شروع کیا ہے۔ اس کے باوجودشہریوں کو گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں پر دوڑتے دیکھا جارہا ہے۔ وائرس کا پھیلاؤ ایک انسان سے دوسرے انسان کے ذریعہ ہونے کی خبروں کے باوجود لوگ خود کو الگ تھلگ یا ایسولیٹ نہیں کررہے ہیں۔ ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں حکومتوں کو کرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔ حیدرآباداور تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں بھی عوام کو گھروں میں رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ رات کا کرفیونافذ کرتے ہوئے پولیس نے عوام کی صحت کا خاص خیال رکھا ہے۔ ایسے میں عوام الناس کا فرص بنتا ہے کہ وہ خود کو گھروں کے اندر ہی بند رکھنے کو یقینی بنائیں۔ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ ساری دنیا میں چین اور اٹلی نے ابتدائی طور پر سماجی دوری یا ایسولیشن کا عمل نہیں کیا نتیجہ میں وائرس تیزی سے پھیلا ، اب چین نے سماجی دوری اختیار کرنے پر سختی عمل کیا تو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی اور اموات کی تعداد بھی گھٹنے لگی۔ اٹلی نے سماجی دوری کا عمل تاخیر سے شروع کیا نتیجہ میں یہاں اموات کی تعداد اورکورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ان دونوں ملکوں کے تجربہ کے بعد ساری دنیا میں حکومتوں نے احتیاطی طور پر لااک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کرنا شروع کیا۔ کویت، نیویارک ، سعودی عرب اور ہندوستان کے علاوہ کئی ملکوں میں سماجی دوری کے ذریعہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کئی افراد پریشان ہورہے ہیںخاصکر وہ لوگ جو معاشی طور پر کمزور اور مجبور ہیں انہیں روز کی روٹی روزی سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں معاشی دوری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کو فوت ہوتا دیکھنا ایک دردناک منظر تو ہے لیکن اس سے زیادہ تشویشناک مسئلہ انسانوں کو اس سماجی دوری سے ہونے والی تکالیف اور مصائب کو دیکھنا بھی ایک المیہ ہے۔ لاک ڈاؤن نے انسانوں کو سماج اور معاش دونوں سے دور کردیا ہے۔ کورونا وائرس کے حملے سے ترقی یافتہ ممالک تو پریشان ہیں ہی لیکن یہ ممالک معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ اصل تباہی تو غریب ممالک میں ہورہی ہے جہاں دو طرح سے انسانی حملے ہورہے ہیں‘ ایک طرف کورونا وائرس نے انسانوں کو خوف زدہ کردیا ہے تو وہیں ان انسانوں میں سے بڑی تعداد غریب انسانوں کو کورونا وائرس اور معاشی دوری نے بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ دنیا کے متمول ملکوں میں عوام خود کو وائرس سے بچانے کے لئے گھروں میں کئی دنوں سے قید رہ سکتے ہیں لیکن غریب ملکوں میں عوام کے لئے گھروں میں بند رہنا گویا دو طرح کے خوف کا سامنا کرنا ہے۔ ایک کورونا وائرس ، دوسرا فاقہ ہے۔ ہندوستان میں بعض شہروں میں مخیر حضرات کی طرف سے غریب عوام کی مدد کی جارہی ہے ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت نے 70 لاکھ غریب کارڈ گیرندوں کو 12 کیلو چاول اور 1500/- روپئے کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ سماجی طور پر بھی بعض تنظیموں نے غریب بستیوں میں کھانے پینے کی چیزیں سربراہ کرنے کا بندوبست کیا ہے۔یہ حالات سب کیلئے چاہے وہ امیر ہوں یا غریب ، طاقتور ہو یا کمزور ہر ایک کے لئے نازک ہیں، اس لئے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ایک طرف کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے خود کوچوکس رکھنا ہے ، دوسری طرف غریبوں کا بھی خیال کرنا ہے۔اس وائرس نے ہندوستان کے فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو بھی ناکام بنادیا ہے۔ ہندوستان کا ہر شہری صرف ایک ہی نکتہ پر غور کررہا ہے کہ کورونا وائرس سے بچنے کیلئے سماجی دوری اختیار کرے۔ سڑکوں سے دور رہتے ہوئے عوام وائرس پر قابو پانے میں حکومتوں اور نظم و نسق کی بھرپور مدد کرسکتے ہیں۔ عوام کو چاہیئے کہ وہ خود کو اور اپنے اطراف میں رہنے والوں کو بھی گھروں میں رہنے کی ترغیب دینی ہوگی۔