سوال یہ ہے کہ شہیدوں کی آبرو کیاہے؟۔ بقلم شکیل شمسی 

,

   

کل سادھو ی پرگیہ نے یہ کہہ کر سارے ملک کو حیران کردیا کہ اس کے شراپ( بددعا) کی وجہہ سے ہیمنت کرکرے کی موت ہوئی تھی ‘ ویسے اس نے یہ نہیں بتایا کہ کرکرے کے ساتھ جو دوسرے ستر پولیس والے دہشت گردوں کی گولیوں کاشکار بنے تھے ان کو اس کی دشکت کی بددعا لگی تھی ؟۔

اور جوپلوامہ میں ہمارے جوان شہید ہوئے ان کو کس سادھو ی نے شراپ دیاتھا؟۔

واضح ہوکہ سادھوی پرگیہ اور اس کے ساتھیوں کو ممبئی اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے دہشت گردوں کے ایسے گروہ کا بھانڈا پھوڑا تھا جس نے بھگوا لباس پہن کر قتل وغارت گری کا ننگا ناچ ملک کے مختلف شہروں میں دکھایاتھا ۔

اس گروہ نے بھی مذپب کا وہی کارڈ کھیلاتھا جو اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے کھیلتے ہیں۔ اس گروہ نے بھی انتہا پسند لباد ہ چڑھانے کی کوشش کی ۔

ان کی اس کوشش کو کامیابی ملی بھی کیونکہ ہندوستان کے انتہا پسند ہندؤوں کی جماعت بی جے پی نے دہشت گرد ی میں ملوث ہونے کے انعام کے بطور دہشت گردی کی اہم ترین ملزمہ کو لوک سبھا جیسے اہم مقام تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا۔اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سادھو ی نے ایک ایسے شہید کی توہین کردی جو دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے ۔

حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘جب ہیمنت کرکرے شہید ہوئے تھے تو پرگیہ نے جیل میں میٹھائیاں بانٹ کر جشن منایاتھا ۔ اسی وجہہ سے بہت سے لوگوں کو اس بات کاشک ہوا تھا کہ ممبئی کے حملے پس پشت کہیں سادھوی کے حامیوں کا ہاتھ تو نہیں تھا؟۔یعنی ممبئی کے حملے کو مشکوک بنانے میں سادھوی پرگیہ کہ اس رویہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

بہرحال دہشت گردی کی ایک خاص ملزمہ کو لوک سبھا کا ٹکٹ دے کر بی جے پی نے اس ملک کے ہندوؤں کو پوری طرح سے دوخانوں مںی تقسیم کردیاہے۔

اب ہندووں کا ایک طبقہ ہمارے سامنے ہے جو ہندو ازم کو اہنسا( عدم تشدد) ‘بلیدان( قربانی) ‘ شانتی ( امن) اورمانوتا( انسانیت ) پر یقین رکھنے والے وسیع القلب ‘ مذہب قراردیتا ہے جبکہ انتہا پسندانہ خیالات رکھنے والا دوسرا طبقہ نفرت ‘ تشدد‘ ماب لینچنگ ‘ قاتلوں کی آؤ بھگت اور دہشت پسندوں کی پذیرائی کرنے وکو اپنے مذہبی عقائد کا اٹوٹ حاصہ سمجھتا ہے ۔ ہندوتوا وادیوں پر مشتمل دوسرا طبقہ اس ملک کوصرف ایک مذہب کے ماننے والوں کا دیش بنانا چاہتا ہے ۔ اس الیکشن میں ہندوؤں کے یہی دوگروپس آمنے

سامنے ہیں اوردنوں کا مستقبل یہی الیکشن طئے کرنے والا ہے ۔ انتہا پسندہندوؤں کا دہشت گردوں کی طرف جھکاؤ ہونا کوئی نہی بات نہیں کیونکہ جب سادھوی کو گرفتار کیاگیاتھا تب بھی بی جے پی کے اعلی سطحی وفد نے سا وقت کے وزیراعظم سے ملاقات کرکے تشویش کااظہار کیاتھا۔ اصل میں بی جے پی والوں کو لگتا ہے کہ جو بھی بھگوا لباس پہن لے اور جو خودکو سنیاسی کہنے لگے وہ قابل احترام ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سے مجرمین اپنے جرائم چھپانے کے لئے اس لباس کا استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے خیال میں دہشت گردوں نے اگر ہندوتوا کے نام کااستعمال کیاتو اس سے ہندو ازم نہ تو بدنام ہوا نہ ہاس کی تعلیمات مجروح ہوئیں ‘ لیکن دہشت گردی کے ملزموں کو ٹکٹ دے کر البتہ بی جے پی نے ہندوازم کی تعلیمات کا مذاق اڑایا ہے۔

اس مسلئے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے تو انہو ں نے کرکرے کی بیوی کویتا کرکرے کو ایک کروڑ کا چیل دینے کااعلان کیاتھا مگر ملک کے اس عظیم سپوت کی بیوہ نے وہ چیف لینے سے انکار کردیاتھا۔

شائد اس خاتون کے دل کو پہلے سے پتہ چل گیاتھا کہ ایک دن مودی جی کی پارٹی ایک ایسی نقلی سادھو ی کوٹکٹ دے گی جو ان کے وطن پرست شوہر کی قربانی کو رائیگاں کرنے کے لئے ان کا غدار کہے گی ۔

بہرحال اس سارے معاملے میں خوشی کی بات تو یہ ہے کہ کرکرے کو غدار کہے جانے پر تالیاں بجانے والے بھاجپائیوں پر عوام کی جانب سے ایسا دباؤ پڑا کہ شام کو نقلی سادھوی کو نے اپناتھوک چاٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔