سونے کی طلب میں کمی،قیمتوں میں اضافہ !

   

جسٹینا واسکیوز، رانجیتا پاکھین
ساری دنیا میں کورونا وائرس نے زبردست تباہی و بربادی مچائی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا اور خاص طور پر سونے کے زیورات کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کاروبار متاثر ہونے کے باوجود سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب تو قیمتیں پچھلے 8 برسوں کے دوران سب سے زیادہ اس مرتبہ ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں ایشیائی و مغربی سرمایہ کاروں اور صارفین میں مختلف رجحان دیکھا گیا ہے۔ ایک طرف جہاں صارفین آسمان کو چھوتی قیمتوں سے پریشان ہیں نتیجہ میں سونے کی طلب کم ہوگئی ہے تو دوسری طرف مغربی و ایشیائی سرمایہ کار کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باوجود سونے میں زیادہ سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ جہاں تک سونے کے استعمال اور اس کے صارفین کا سوال ہے دنیا میں سب سے زیادہ سونا چین اور ہندوستان میں استعمال کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ سونا انہی دو ملکوں میں فروخت ہوتا ہے۔ سونے کی موجودہ قیمت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ قیمت پچھلے 8 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔
جاریہ سال ایکچینج ۔ٹریڈٹ فنڈ (ETF) میں بہاؤ اور زیادہ تر یہ بہاؤ شمالی امریکہ اور یوروپ میں دیکھا گیا۔ اب یہ بہاؤ 2009 میں قائم کردہ سالانہ ریکارڈ سے بالکل قریب ہے۔ یہ بات بلومبرگ کی جانب سے تیار کردہ ایک ڈاٹا میں بتائی گئی ہے۔ دوسری طرف سونے کی سلاخوں، سکوں اور سونے کے زیورات کے دنیا میں سب سے بڑے خریدار چین اور ہندوستان میں کورونا وائرس وباء کے پھوٹ پڑنے کے بعد سونے کی طلب میں خطرناک حد تک گراوٹ آئی ہے۔ درآمدات شدید متاثر ہوتی ہیں اور شاپنگ مالس ویران پڑے ہیں چونکہ سونے کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اسی کے نتیجہ میں خریدار سونے کے زیورات یا پھر سونے کی سلاخیں اور سکے خریدنے سے گریز کررہے ہیں۔ نتیجہ میں خریدی سست روی کا شکار ہوئی ہے۔

خاص طور پر مغربی سرمایہ کار ایک محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہے۔ وہ ایشیا میں ٹھوس سونے کی طلب کے روایتی مراکز تلاش کررہے ہیں۔ جاریہ سال مارکٹ کے لئے بھی اہم سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر ای ٹی ایف کا بہاؤ سست روی کا شکار ہوتا ہے تو پھر قیمتوں کا جو جوکھم ہے اس پر اثر پڑے گا یا پھر چین اور ہندوستان میں سونے کی طلب بڑے گی تو ایسی صورت میں سونے کی عالمی مارکٹ میں زبردست حرکت پیدا ہوگی۔ DWS انوسٹمنٹ مینیجمنٹ امریکاز انکلیسیو کے پورٹ فولیو مینجر ڈروی کنگ کے مطابق ہمیں توقع ہے کہ امریکی اور یوروپی سرمایہ کار ایشیا میں طلب نہ ہونے کے باوجود ہنوز سونے میں دلچسپی رکھیں گے۔ اگر خریداری کا پیٹرن یا نمونہ چین اور ہندوستان میں ایک ساتھ اوپر کی طرف جائے گا تو اس سے امکان پایا جاتا ہے کہ سونے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ جن ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ کاری کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ جاریہ سال سونے کی قیمتوں میں 18 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گولڈ مین سیاش گروپ انکلیسیو نے جون میں جو تخمینہ کیا اس کے مطابق اقتصادی استحکام کی واپسی اور کمزور ڈالر کا مطلب ابھرتی مارکٹ میں دوسری نصف کی طلب میں اضافہ ہے اور اس سے سونے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ سونے کی قیمتوں میں اضافے سے مشرق میں طلب کسی حد تک کم ہوسکتی ہے اور قیمتوں کا زیادہ تر انحصار مغرب میں سرمایہ کاروں پر منحصر ہوسکتا ہے۔ یہ بات کامرس بینک اے جی کے تجزیہ نگار کارسٹن فریش نے بتائی۔ 2020 میں سونے کی قیمتوں میں 17 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 2011 کے بعد پہلی مرتبہ سونے کی قیمت فی اونس 1800 ڈالر ہوگئی اور جو اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ جہاں تک قیمتوں میں مسلسل اضافے کا سوال ہے اس کا سب سے زیادہ اثر ایشیائی خریداروں یا صارفین پر پڑا ہے۔ روایتی طور پر ایشیا کو دولت جمع کرنے کا مرکز کہا جاتا ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑنے کے بعد لاک ڈاونس نافذ کئے گئے نتیجہ میں چین اور ہندوستان جیسے ملکوں میں سونے کے زیورات کی طلب میں کمی آئی ہے۔ اس کی دیگر وجوہات میں لاک ڈاونس کے باعث بیروزگاری میں اضافہ اور معیشت کا عدم استحکام بھی ہے جس کے باعث لوگ خرچ کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ سونے سے متعلق کنسلٹنسی میٹلس فوکس لمیٹیڈ نے پیش قیاسی کی ہے کہ 2020 میں چین جیسے ملک میں سونے کے زیورات کے استعمال میں 23 فیصد کی کمی رہے گی جبکہ ہندوستان میں سونے کی طلب میں 36 فیصد کمی کا امکان ہے۔

چائنا گولڈ اسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹیو ژانگ یون تاؤ اس بارے میں کہتے ہیں کہ 2019 کی بہ نسبت جاریہ سال چین میں سونے کی فروخت میں 30 فیصد کی کمی ہوگی۔ ویسے بھی ژانگ یون تاؤ اس صورتحال کو بھی بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ جس وقت چین میں کورونا وائرس کی وباء بام عروج پر پہنچ چکی تھی اس وقت کہا گیا تھا کہ سونے کی طلب میں 50 فیصد کمی آئے گی۔

ہندوستان میں جو سونا درآمد کرتا ہے اپریل اور مئی میں سونے کی درآمدات میں تقریباً 99 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ اس کے برعکس ای ٹی ایف سے طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ سرمایہ کار ان تمام حقائق کے باوجود سونے میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ای ٹی ایف میں سونے کے ذخائر میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ جاریہ سال 600 ٹن سے زیادہ ہے۔ بلومبرگ کے تیار کردہ ڈاٹا میں یہ بتائی گئی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ای ٹی ایف بہاؤ چین اور ہندوستان میں پہلے سہ ماہی کے دوران 2009 کے بعد پہلی مرتبہ ریٹیل خریداری سے آگے بڑھ گیا ہے جبکہ دوسرے سہ ماہی کا کنزیومر ڈاٹا ابھی دستیاب نہیں ہے۔ امریکہ میں سونے کی درآمدات بھی کورونا وائرس کے باعث متاثر ہوئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون کے نتیجہ میں طیاروں کی پروازیں روک دی گئیں اور ریفائنریز بند کردی گئیں۔ اگر ہندوستان اور چین میں سونے کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر مارکٹ میں استحکام آسکتا ہے۔ ورلڈ گولڈ گونسل میں چین کے مینجنگ ڈائرکٹر رونالڈ وانگ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جاریہ سال ہم یقینا ریٹیل بزنس کے لئے کئی چیالنجس دیکھیں گے اور خاص طور پر زیورات کے شعبہ میں حالات کی تبدیلی کا انحصار عالمی معیشت کے احیاء اور کورونا وائرس کی وباء کی صورتحال پر منحصر ہوگا۔