سکریٹریٹ مساجد کے انہدام پر ٹی آر ایس اقلیتی قائدین میں بے چینی

   

بعض قائدین کا استعفی، عہدوں پر فائز افراد کا تبصرہ سے گریز
حیدرآباد۔ سکریٹریٹ میں دو مساجد کی شہادت کے خلاف مسلمانوں میں بے چینی سے ٹی آر ایس اقلیتی قائدین حکومت سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ پارٹی کے مسلم ارکان اسمبلی و کونسل کے علاوہ کارپویشنوں کے صدور نشین اس پر کسی بھی تبصرہ سے گریز کررہے ہیں لیکن پارٹی عہدوں پر فائز کئی قائدین نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سوشیل میڈیا پر کئی قائدین نے پارٹی سے علحدگی کا اعلان کیا اور مساجد کی شہادت کی مذمت کی۔ واضح رہے کہ ٹی آر ایس میں شہر و اضلاع میںاقلیتی قائدین کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ ہمیشہ پارٹی و حکومت کے دفاع میں دوسروں کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ جب سے سکریٹریٹ مساجد کی شہادت ہوئی ہے اقلیتی قائدین میں بے چینی پیدا ہوگئی۔ شہر اور اضلاع کے کئی قائدین یا تو خود کو عوام سے دور کرچکے ہیں یا پھر سوشیل میڈیا پر اظہار خیال کررہے ہیں۔ شہر سے 2 اقلیتی قائدین نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنے استعفی کا اعلان کردیا ۔

ایل بی نگر این ٹی آر نگر علاقہ کے صدر محمد صمد نے مساجد کی شہادت کے خلاف پارٹی سے استعفی کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کے سی آر نے جس طرح مساجد کو شہید کیا ہے اس سے پارٹی کا سیکولر امیج متاثر ہوگیا لہذا وہ ایسی پارٹی سے خود کو وابستہ نہیں رکھ سکتے۔ پارٹی کے ایک اور سینئر قائد نے سوشیل میڈیا کا سہارا لے کر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ مساجد کی شہادت کے معاملہ میں وزیر داخلہ محمد محمود علی اور صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے احاطہ سکریٹریٹ میں عالیشان مسجد کی تعمیر کے متعلق چیف منسٹر کے اعلان کا خیرمقدم کیا جبکہ ارکان مقننہ عامر شکیل، فرید الدین اور فاروق حسین نے اس پر کوئی بیان نہیں دیا۔ اسی طرح بعض کارپوریشنوں و سرکاری اداروں پر فائز مسلم صدورنشین بھی تبصرہ سے گریز کررہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے اس معاملہ میں کچھ بھی کہنا نہیں چاہتے۔

حساس مسئلہ میں حکومت کی تائید ان کیلئے مسائل میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ مساجد کی شہادت کے خلاف مسلمانوں میں ناراضگی کے سبب مسلم قائدین، ارکان مقننہ ٰ صدورنشین کو کھل کر مذمت کیلئے مجبور ہونا پڑیگا۔ کئی سینئر قائدین نے اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ حکومت کے اس فیصلہ پر ناراض ہیں تاہم مناسب وقت پر پارٹی سے علحدگی کا اعلان کریں گے۔ اقلیتی قائدین کی اکثریت سرکاری عہدوں میں موقع نہ ینے پر پہلے ہی ناراض ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مخصوص گروپ کو سفارش کی بنیاد پر عہدے دیئے گئے جبکہ کارکردگی کی بنیاد پر عہدوں کی تقسیم نہیں ہوئی ہے۔