سکھائے کس نے اسمعٰیل کو آداب فرزندی

   

سید عطاء اللہ شاہ
سورۃالصافات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کیوں کی جاتی ہے اور یہ کہ اولاد کی فرماں برداری نے ہی اس عظیم قربانی کو ممکن کردکھایا۔ درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعاء مانگی کہ ’’پروردگار! مجھے نیک اولاد عطا فرما‘‘۔ اس دعاء کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالی نے نیک اولاد کی نشانی بھی بتائی اور ارشاد فرمایا کہ ’’ہم نے اس کو ایک فرماں بردار فرزند کی بشارت دی‘‘۔ تمام پیغمبروں نے والدین کی فرماں برداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ سورہ بقرہ میں حکم ہے کہ ’’تم اللہ کے سواء کسی کی بندگی نہیں کرو گے اور والدین اور قریبی رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان (اچھا سلوک) کرو گے اور لوگوں سے خوش کلامی کرو گے اور صلوۃ قائم کرو گے اور زکوۃ ادا کرو گے‘‘۔
سورہ مریم میں حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اللہ تعالی نے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خوش خبری دی اور بعد میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ہم نے اسے بچپن ہی میں حکم سے نوازا اور اسے خلوص و محبت، پاکیزگی بخشی، وہ پرہیزگار اور والدین کا اطاعت گزار تھا اور سرکش و نافرمان نہ تھا۔ سلام ہے اس پر، اس کی پیدائش کے دن پر، اس کی موت کے دن پر اور اس دن پر جب وہ زندہ اٹھایا جائے گا‘‘۔
اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے کہ ’’اور تمہارے پروردگار کا حکم ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعاء کرو کہ اے پروردگار! جیسا انھوں نے میری بچپن میں پرورش کی تو بھی ان پر رحم فرما‘‘۔

سورۃ الصافات میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرماں برداری کا درس اور صابر والد (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کے لئے اللہ تعالی کی اطاعت کا نمونہ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’پس جب وہ (برد بار، فرماں بردار فرزند اسماعیل علیہ السلام) اس کے ہمراہ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچے تو اس نے کہا کہ اے میرے بیٹے میں خواب دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ پس غور کر کہ اس بارے میں تیری کیا رائے ہے؟۔ (اسماعیل علیہ السلام) نے کہا ’’اے میرے باپ! جو کچھ آپ کو حکم ہوا ہے بجا لائیے، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔

قرآن پاک سے یہ بھی ثابت ہے کہ پیغمبروں کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہ تو یہ کہا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تجھے قربان کروں اور نہ ہی یہ کہا کہ بیٹا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ جب میں تجھے ذبح کرو تو تجھے صبر کرنا ہوگا، بلکہ والد نے بیٹے سے صرف یہ کہا کہ یہ میرا خواب ہے اور تو غور کر کہ اس بارے میں تیری کیا رائے ہے؟۔ جواب میں بیٹے نے اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کا وہ نمونہ پیش کیا، جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ماہ ذی الحجہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب فرماں بردار بیٹے نے اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والد کی خواہش پر اپنی جان قربانی کے لئے پیش کردی تو اس قربانی کے جذبے نے والد کے جذبہ قربانی کو تقویت عطا کی اور والد نے بھی اللہ کی اطاعت کے لئے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لئے (بلاتاخیر) قربان کرنے کی آزمائش میں پورا اترکے دکھایا۔ یہی اطاعت و فرماں برداری کا سچا جذبہ اللہ تعالی کو اتنا پسند آیا کہ پروردگار عالم نے اللہ تعالی کی اطاعت اور والدین کی فرماں برداری کے اس جذبہ کی تعلیم اور تجدید کے لئے سورۃ الصافات کے علاوہ سورۃ البقرہ، سورۃ المائدہ، سورۃ الحج کے ذریعہ ہمیں یہ تعلیم دی کہ ’’قربانی کیسے کرنی ہے اور کہاں کرنی ہے‘‘۔
اسی طرح قربانی کے لفظی معنی اور مفہوم سورۃ المائدہ، سورۃ آل عمران، سورۃ الاحقاف، سورۃ الفتح اور سورۃ الکوثر میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ’’قربانی‘‘ کے متعلق احادیث نبوی سے بھی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔

اللہ تعالی قرآن پاک کی سورۃ الحج میں قربانی کے متعلق فرماتا ہے کہ ’’اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ تقویٰ کے معنی ہیں ’’اللہ کا ڈر، گناہوں سے پرہیز، پاکیزگی اور پرہیزگاری‘‘۔ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو متقی کہا جاتا ہے۔