سکھوں کو مسلمانوں کیخلاف استعمال کرنے کی سنگھ پریوار کی کوششیں

   

پروفیسر اپورو آنند
آر ایس ایس اور بی جے پی اس بات کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں کہ سکھ ، مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہوں۔ فرقہ پرست جس طرح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنارہے ہیں، انہیں مختلف طریقوں سے ستا رہے ہیں، مختلف بہانوں سے ڈرا رہے ہیں ، ان پر تشدد کررہے ہیں۔ اس طرح سکھ بھی مسلمانوں کے خلاف رویہ اختیار کریں، لیکن سکھوں نے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست ان کے ایجنڈہ کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے تب ہی تو وہ فرقہ پرستوں کی خواہشات کے مطابق کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جہاں تک آر ایس ایس اور بی جے پی کا سوال ہے، وہ مغلوں اور سکھ مذہبی رہنماؤں کے درمیان ہوئے تصادم کے واقعات کو یاد کرتے ہیں، خاص طور پر گرو گوبند سنگھ اور گرو تیغ بہادر کی بار بار یاد کرتے ہیں۔ دراصل ان کی نیت میں کھوٹ ہے۔ ان کا ارادہ ان سکھ مذہبی رہنماؤں کو یاد کرنا نہیں بلکہ وہ اس کے ذریعہ سکھوں میں مسلم دشمنی کا جذبہ اور احساس پیدا کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ وہ سکھوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہتے ہیں کہ مغلوں نے سکھ گروؤں پر ظلم کیا اور مغل مسلمان تھے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ تمام فرقہ پرستوں کیلئے یہ بات باعث تشویش ہے کہ سکھوں نے خود کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی سیاست کیلئے استعمال ہونے سے گریز کیا ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ سکھ کمیونٹی ہرگز نہیں چاہتی کہ وہ ہندوتوا کی سیاست کا ہتھیار بنے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس سکھوں، ان کے مذہب اور ان کی تاریخ کو ہندوتوا سیاست کا ہتھیار بنارہی ہے اور وہ ہرگز ایسا نہیں ہونے نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سنگھ پریوار کی ان مذہوم حرکتوں و کوششوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ شاید سنگھ پریوار اور اس کی سیاسی ونگ بی جے پی اس لئے پریشان ہے کہ مسلمانوں اور سکھوں میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر مذہبی بنیاد پر بنائے گئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مسلمانوں کی تحریک میں سکھوں نے مسلمانوں کی نہ صرف تائید کی بلکہ اُن کے ساتھ کھڑے رہے۔ گڑگاؤں میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز سے روکا جانے لگا، سکھوں نے گردواروں کے دروازے مسلمانوں کیلئے کھول دیئے۔ دیکھا جائے تو بی جے پی کو سکھوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کیلئے اپنا الو سیدھا کرنے سکھوں کو استعمال کرنے کی خواہاں ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس ہندوؤں کو یہ بتانے کی خواہاں ہے کہ سکھ مت کے نام سے کسی الگ مذہب کا کوئی وجود نہیں بلکہ سکھ مت، ہندو مذہب کی ایک شاخ ہے۔ اس لئے صاحبزادوں کو اس نام سے نہیں پکارا جائے گا جس نام سے سکھ انہیں یاد کرتے ہیں اور ’’ویر بالک‘‘ کہہ کر ان کی پہچان ختم کردی جائے گی۔ آر ایس ایس کے باعث ہندوؤں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ سکھ ، ہندوؤں کے محافظ اور چوکیدار ہیں۔ سکھ مذہب ، ہندو مذہب کی حفاظت کیلئے پیدا ہوا تھا اور یہ بات ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ شہادت بابری مسجد کے دوران لگایا گیا ’’بابر کی اولاد‘‘ جیسا نعرہ سب کو یاد ہے، اس وقت مسلمانوں کو ’’بابر کی اولاد‘‘ قرار دے کر ان کی اصلی جگہ پر انہیں بھیج دینے کی ہندوؤں سے اپیل کی گئی تھی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ویربال دیوس‘‘ کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے تاریخ کی نئی تشریح و تاویل کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں غلط تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانیوں میں احساس کمتری پائی جاتی ہے۔ مودی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اب ان کی حکومت ایک ایسی تاریخ پیش کررہی ہے جس سے ہندوستانیوں میں جذبہ فخر پیدا ہوگا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی نظر میں اور ان کی تاریخ میں مغلوں سے لے کر ٹیپو سلطان جیسے مجاہد آزادی بھی دہشت گرد تھے، خاص طور پر مغلوں کیلئے وہ بار بار دہشت گرد اور حملہ آور کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ وہ مغلوں پر یہ بھی الزام عائد کررہے ہیں کہ ان لوگوں نے ہندوؤں کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا۔ بی جے پی کی تاریخ ، تبدیلی مذہب مہم کے خلاف بھی مفید ہے۔غرض مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے ہر مقدس اور باوقار موقع کو استعمال کرنے کیلئے کمینے پن کو نظرانداز کرنا یقینا خطرناک ہے۔ راقم الحروف کے ایک طالب علم نے بتایا کہ ہندوؤں کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ اب مغلوں کے کئے کا بدلہ لینے کا وقت آچکا ہے اور جو جنگیں ہمارے آباء و اجداد ہار گئے تھے، انہیں جیت میں تبدیل کیا جانا چاہئے۔ ایسا کئی طریقوں سے کیا کیا جارہا ہے۔ مسلم شہروں کے نام تبدیل کرکے رانا پرتاپ اور دوسرے ہندو راجاؤں کو بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہوئے ایسا کیا جارہا ہے۔ سکھوں کو بھی اس معاملے میں استعمال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن وہ (سکھ) فرقہ پرستوں کے اس دھوکہ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو ہندوتوا کا ہتھیار بننے سے انکار کررہے ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہندو کب اس دھوکے کو پہچان پائیں گے کہ مٹھی بھر شرپسند اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنے کی خاطر انہیں تباہی و بربادی کے گہرے دلدل میں دھنسا رہے ہیں۔