سیاستداں زباں دے کر بآسانی پلٹتا ہے

,

   

گجرات الیکشن … بی جے پی کی نفرت کی سیاست
عبادت گاہیں عدالتوں میں نشانہ پر

رشیدالدین
اسمبلی الیکشن تو گجرات میں ہے لیکن بی جے پی کی انتخابی مہم ملک بھر سے چلائی جارہی ہے۔ مودی۔امیت شاہ کی ریاست میں الیکشن پر ملک کی نظریں ہیں اور 27 سال سے حکمرانی کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے بی جے پی کچھ بھی کرنے تیار ہے ۔ سیاسی سطح پر عام آدمی پارٹی سے نمٹا جارہا ہے تو دوسری طرف ہندوتوا اور فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ گجرات کے انتخابی ماحول کو آلودہ کرنے کی منصوبہ بندی ہے ۔ گجرات میں الیکشن ہو تو ظاہر ہے کہ مہم بھی گجرات میں ہی چلے گی لیکن بی جے پی نے دوسری ریاستوں میں اپنی سرگرمیوں سے انتخابی ریاست پر اثر انداز ہونے کا ہنر سیکھ لیا ہے ۔ اروند کجریوال نے دہلی اور پنجاب کی طرح مفت اسکیمات کا اعلان کرتے ہوئے مودی۔امیت شاہ کی نیند اڑادی ہے۔ دو ریاستوں میں حکمرانی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابیوں کو گجرات میں دہرانے کی بات رائے دہندوں پر اثر انداز ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کجریوال عوام کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ فری اسکیمات کے باوجود دہلی کا بجٹ خسارہ میں نہیں ہے جبکہ گجرات میں فری اسکیمات کے بغیر ریاست چار لاکھ کروڑ سے زائد کی مقروض ہے۔ کجریوال کی اسکیمات کو اگر عوام قبول کرنے لگیں تو گجرات میں بھی تبدیلی کی لہر چل سکتی ہے۔ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو کمزور کرنے اس کے امیدواروں کو لالچ دینا شروع کردیا ہے۔ سورت کے عآپ امیدوار نے لمحہ آخر میں مقابلہ سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ بتایا جاتا ہے کہ لالچ اور دھمکیوں کے ذریعہ عآپ امیدواروں میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ وہ مہم سے دور رہیں۔ سورت کا واقعہ عام آدمی پارٹی سے خوف کا واضح ثبوت ہے ۔ اگر بی جے پی کو خطرہ نہیں ہے تو پھر امیدواروں کی خریدی کی کیا ضرورت ہے ۔ جس ریاست میں کرپشن اور بدعنوانیاں ہوں وہاں عوامی رقومات کی لوٹ عام ہوجاتی ہے اور حکومت چلانے کیلئے بھاری قرض حاصل کئے جاتے ہیں جس کی ادائیگی کیلئے عوام پر ٹیکس کی شکل میں اضافی بوجھ عائد کیا جاتا ہے ۔ گجرات میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے پاس عوامی مقبول چہرہ نہیں ہے جسے دیکھ کر ووٹ حاصل ہوں ۔ مودی۔امیت شاہ کے سیاسی مستقبل سے جڑے اس الیکشن میں کامیابی کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ رائے دہی کی تاریخ قریب آنے تک بہت سی تبدیلیاں ہوں گی۔ پارٹی میں موجود مخالف مودی۔امیت شاہ طاقتوں کو نتیجہ کا انتظار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی۔امیت شاہ جوڑی نے انتخابی مہم کی ذمہ داری صرف اپنے کاندھوں پر رکھی ہے کیونکہ انہیں دوسروں پر بھروسہ نہیں ۔ اگر یہ جوڑی گجرات بچانے میں ناکام رہی تو پارٹی میں بغاوت کی آوازیں سنائی دے سکتی ہے ۔ عآپ کے لئے مثبت پہلو یہ ہے کہ عوام نے کبھی اس پارٹی کو آزمایا نہیں ہے ۔ پنجاب میں اکالی دل ، کانگریس اور بی جے پی کے باوجود ایک غیر معروف شخص کو چیف منسٹر کے عہدہ کا امیدوار بناکر عام آدمی نے قلعہ فتح کرلیا ۔ اگر گجرات کے عوام ایک مرتبہ موقع دے کر آزمانے کا فیصلہ کرلیں تو بی جے پی کی نیا ڈوب جائے گی۔ ویسے بھی 27 سال کا عرصہ معمولی نہیں ہوتا۔ مغربی بنگال میں جیوتی باسو جیسے مقبول قائد کی حکومت کو زوال سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ سیاست میں کب کیا ہوجائے کہا نہیں جاسکتا۔ ضروری نہیں کہ مودی لہر گجرات میں بھی برقرار رہے۔ کسی سیاسی لیڈر کی لہر کا ہمیشہ باقی رہنا ضروری نہیں ۔ اندرا گاندھی جیسی مقبول اور خاتون آہن شخصیت کو جنتا پارٹی نے شکست دے دی تھی۔ جنتا پارٹی کی نظریاتی مہم کے طوفان میں اندرا گاندھی کی مقبولیت کی عمارت زمین بوس ہوگئی تھی ۔ یہ ضروری نہیں کہ مودی لہر حقیقت میں برقرار رہے ۔ لہر کے بارے میں گودی میڈیا کے ذریعہ جو ہوا کھڑا کیا جارہا ہے ، ہوسکتا ہے کہ زمینی سطح پر وہ موجود نہ ہو۔ جس طرح ہر عروج کو زوال ہے ، ہندوستان نے کئی سورما سمجھے جانے والے قائدین کا زوال دیکھا ہے ۔ ملک میں بی جے پی کا عروج اپنی آخری حد کو پہنچ چکا ہے ۔ اسکیمات اور تر قیاتی کام اپنی جگہ لیکن عوامی سوچ کے آگے کچھ بھی نہیں چلتا۔ بی جے پی نے گجرات میں فرقہ وارانہ موضوعات کو ہوا دینا شروع کردیا ہے ۔ دراصل 27 سالہ طویل حکمرانی کے دوران بی جے پی نے رائے دہندوں میں نفرت کا ایسا زہر گھول دیا کہ بی جے پی کے حامیوں کے لئے فرقہ وارانہ ایجنڈہ ہاضمہ کے چورن کی طرح ہے ۔ اگر بی جے پی انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دے تو ووٹ بینک کمزور ہونے کا خطرہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 ء گجرات فسادات کے واقعات کو دہراکر اقلیتی رائے دہندوں میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مسلم علاقوں کو انتخابی مہم میں خاص طور پر نشانہ بنانے کی شکایت ملی ہے ۔ جیسے جیسے رائے دہی کی تاریخ قریب آئے گی ، گجرات کی مہم مذہبی رنگ اختیار کرتی جائے گی ۔ بی جے پی کا مقابلہ صرف عام آدمی پارٹی کرسکتی ہے جبکہ کانگریس نے عملاً میدان چھوڑ دیا ہے ۔ پارٹی کے قومی قائدین بھی گجرات کی مہم سے دور ہیں۔ سیکولر ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ بی جے پی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ بعض علاقائی جماعتوں کی گجرات میں سرگرمیوں سے اندیشہ ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم ہوجائیں لیکن عوام میں مخالف بیجے پی حکومت لہر ہو تو سیکولر ووٹ کی تقسیم بی جے پی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ گجرات میں کئی اسمبلی حلقہ جات میں مسلم ووٹ فیصلہ کن موقف میں ہیں ، شرط یہ ہے کہ ان کا استعمال کسی ایک سیکولر پارٹی کے حق میں متحدہ طور پر کیا جائے ۔ مسلم رائے دہی کو روکنے کیلئے گجرات فسادات کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔ وہاں کی مسلم ، مذہبی اور سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ ووٹ کے استعمال کے بارے میں شعور بیداری اور رہنمائی کریں۔ بی جے پی کے علاوہ جس سیکولر پارٹی کا امیدوار کامیابی کے موقف میں ہو تو اس کے حق میں متحدہ طور پر ووٹ کا استعمال ہونا چاہئے ۔ اگر اس موقع کو گنوادیا گیا تو مسلم ووٹ کی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ سنگھ پریوار بالخصوص آر ایس ایس چاہتی یہی ہے کہ مسلمانوں کو رائے دہی سے دور رکھا جائے یا پھر مخالفت میں ووٹنگ کو روکا جائے ۔
گجرات میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں عدالتوں کے بعض فیصلے معاون ثابت ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ اترپردیش ، کرناٹک اور دیگر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہوئے گجرات کی مہم پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ کرناٹک جو کبھی سیکولر ریاست تھی، ان دنوں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی تجرباتی فیکٹری میں تبدیل ہوچکی ہے جہاں روزانہ کسی نہ کسی عبادتگاہ یا مسلمانوں سے جڑے ہوئے مسئلہ پر تنازعہ پیدا کیا جارہا ہے ۔ اذان پر پابندی کے بعد حجاب اور اب لو جہاد پر نفرت کی سیاست عروج پر ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سرگرمیوں کو گجرات کے الیکشن میں استعمال کرتے ہوئے ووٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے جبری تبدیلی مذہب پر جو فیصلہ سنایا ہے ، وہ بی جے پی کو قومی سطح پر قانون سازی کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے ۔ سپریم کورٹ نے جبری تبدیلی مذہب کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا اور مرکز کو انسدادی اقدامات کی ہدایت دی۔ ملک کی 9 ریاستوں میں تبدیلی مذہب قانون نافذ ہوچکا ہے اور سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ سے قومی سطح پر قانون سازی کا امکان بڑھ چکا ہے ۔ جبری تبدیلی مذہب دراصل مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ اگر مسلمان جبری تبدیلی مذہب کے قائل ہوتے تو 800 برس کی حکمرانی میں ملک میں مسلمان اقلیت کے بجائے اکثریت میں آسکتے تھے لیکن مسلم حکمرانوں نے اقلیت میں رہ کر اکثریت پر رواداری کے ساتھ حکومت کی۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت تمام ہندوستانیوں کو ہندو قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں گھوم رہے ہیں، وہ دراصل گجرات کے باہر سے بی جے پی کی مہم چلا رہے ہیں۔ وارانسی کی مقامی عدالت نے تاریخی گیان واپی مسجد میں فرضی شیو لنگ کی پوجا سے متعلق درخواست کو سماعت کے لئے قبول کرلیا ۔ مسلمانوں نے 1991 ء کے عبادتگاہ قانون کا حوالہ دیا جسے پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا تھا لیکن مقامی عدالت نے اس قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندو فریق کی 2 ڈسمبر کو سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ مسجد کے احاطہ میں موجود فوارے کو شیو لنگ کا نام دیا جارہا ہے۔ اگر عدالت نے پوجا کی اجازت دے دی تو ملک کی ہر تاریخی مسجد کیلئے خطرہ پیدا ہوجائے گا اور مساجد کے خلاف عدالتوں میں درخواستوں کا فلڈ گیٹ کھل جائے گا ۔ بابری مسجد تنازعہ کے بعد مرکز نے 1991 ء میں قانون سازی کرتے ہوئے ملک کی تمام عبادتگاہوں کے آزادی کے وقت موجود موقف کا تحفظ کیا ہے۔ بابری مسجد اراضی کو رام مندر کے حوالے کرنے کے فیصلہ سے سنگھ پریوار کی ہمت بڑھ چکی ہے۔ کم سے کم عدلیہ کو ملک کے قوانین کا تحفظ کرنا چاہئے۔ یہ تمام عدالتی سرگرمیاں گجرات الیکشن کا حصہ ہوسکتی ہیں۔ منور رانا نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
سیاسی مورچہ سے عمر بھر پیچھے نہیں ہٹتا
سیاستداں زباں دے کر بآسانی پلٹتا ہے