سیاہ فام شخص کی موت پر امریکہ سے فرانس، برطانیہ تک احتجاج

,

   

نیویارک؍ پیرس ؍ لندن ۔ 3 جون (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میںسفاکانہ موت ٹرمپ نظم و نسق کیلئے روزبروز پریشانی بڑھاتی جارہی ہے۔ سب سے پہلے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس موت پر نہ صرف سیاہ فام برادری بلکہ دیگر انصاف پسند اور انسانیت کا درد رکھنے والے سفید فام امریکیوں کے احتجاج پر غلط رویہ اپنایا۔ انہوں نے سخت الفاظ استعمال کئے اور شدت سے احتجاج کو کچلنا چاہا لیکن معاملہ الٹا پڑ گیا۔ دو روز قبل احتجاجی لوگ وائیٹ ہاوس کے روبرو بڑی تعداد میں جمع ہوگئے جس پر صدر ٹرمپ کو اپنی فیملی کے ساتھ کچھ وقت کیلئے بنکر میں گذارنا پڑا کیونکہ سیکوریٹی حکام کو اندیشہ ہورہا تھاکہ اس قدر بڑی تعداد میں وائیٹ ہاؤس کے پاس احتجاجیوں کی موجودگی کسی ناخوشگوار واقعہ کا مؤجب بن سکتی ہے۔ تاہم احتجاجیوں نے پرسکون انداز میں اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ مینیا پولیس میں فلائیڈ کی ہلاکت پر انصاف کیا جائے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی سوچ مختلف انداز میں کام کررہی ہے۔ انہوں نے تمام امریکی گورنرس کو سخت اقدامات کی ہدایت دی اور کہاکہ بھاری تعداد میں مسلح فورسیس کو تعینات کیا جائے۔ چہارشنبہ کے آتے آتے امریکی احتجاجیوں کے ساتھ اظہاریگانگت میں متوازی احتجاج یوروپ تک پہنچ گیا۔ گذشتہ روز فرانس کے پیرس اور برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے جس میں صرف سیاہ فام نہیں بلکہ قابل لحاظ سفید فام شہری بھی شامل تھے۔ انہوں نے پلے کارڈس اور بیانروں کے ساتھ امریکی حکومت ، صدر ٹرمپ کے رویہ اور فلائیڈ سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ احتجاجیوں نے ایسے پلے کارڈس لہرائے کہ سیاہ فام لوگوں کی جانوں کی بھی مساوی اہمیت ہے۔ دریں اثناء صدر ٹرمپ مذہب کی آڑ لیکر اپنے لئے ہمدردی جٹانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ انہوں نے ایک ایگزیکیٹیو آرڈر پر دستخط کئے جو بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق ہے۔ انہوں نے سینٹ جان پال II نیشنل چرچ کا رخ بھی کیا۔