نئی دہلی۔ دہلی کے ایک ہائی کورٹ نے جے این یو سیڈیشن معاملے میں کہاکہ اب دہلی حکومت سے سوال ہے کہ ملزمین کے خلاف قانونی کاروائی کے متعلق اجازت دینے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے ‘ اس کیس میں جے این یو ایس یو کے سابق صدر کنہیا کمار ‘ عمر خالد اور دیگر کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج ہے۔
مذکورہ کورٹ کے چیف میٹرو پولٹین مجسٹریٹ دیپک شراوت نے یہ تبصرہ اس وقت کیاجب ڈی سی پی( اسپشل سل) پرمود کشواہا عدالت میں پیش ہوئے اور کہاکہ انہو ں نے پہلے ہی حکومت سے منظوری کی نمائندگی رجوع کردی ہے۔
کشواہا جوجمعہ کے روز عدالت کی جانب سے انہیں پیش ہونے کی ہدایت کے بعد عدالت میں حاضر ہوئے نے عدالت کو اس بات کی بھی جانکاری دی کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق بغیر اجازت کے چارج شیٹ داخل نہیں کی جاسکتی ہے۔
اسی پر جمعہ کے روز عدالت نے پولیس سے تفصیلات طلب کی تھیں۔ کشواہانے کہاکہ ’’ بنا منظوری کے چارج شیٹ داخل کی جاسکتی ہے ۔ ہم مزید وقت مانگ رہے ہیں۔ ہم نے منظوری کے لئے ہوم ڈپارٹمنٹ جی این سی ٹی سے درخواست کی ہے‘‘ ۔
مذکورہ سینئر افیسر نے مزید وقت مانگا۔کشواہا کے جواب پر ردعمل پیش کرتے ہوئے شراوت نے مانا کے دہلی پولیس کا کام اب ختم ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ’’ میں دہلی حکومت سے اب کہوں گا کہ۔ تمہارا رول ختم ہوگیا ہے ۔ مذکورہ حکومت اب کیا کرنے والی ہے‘‘۔
کمار اور دیگر کے متعلق قانونی کاروائی کے متعلق منظوری کے ضمن میں تفصیلات پیش کرنے کے لئے جمعہ کے روز عدالت نے ڈی سی پی کو سمن جاری کیاتھا۔ مارچ 11کے روز عدالت نے تاخیر پر پولیس سے سوال کیاتھا او رکہاکہ معاملے کو آگے بڑھائیں۔
تحقیقاتی افیسر غیرحاضری تھے تب عدالت نے اس کی وجہہ جانے کے تحقیقات کاحکم دیا‘ پراسکیوٹر نے کہاکہ وہ حادثے کاشکار ہوئے ہیں۔چارج شیٹ میں داخل دیگر ناموں میں کشمیری طلبہ عاقب حسین ‘ مجیب حسین ‘ منیب حسین ‘ عمر گل ‘ رایائے رسول‘ بشیر بھٹ او ربشارت کے نام شامل ہیں۔