مظفر نگر۔ جیل میں 11دن گذارنے کے بعد ایک سرکاری کلرل اور دیگر تین لوگ جنھیں ”غلطی“ سے مظفر نگر پولیس نے 20ڈسمبر کے روز گرفتار کرلیاتھا منگل کے روز جیل سے باہر ائے ہیں۔
مظفر نگر میں تشدد اور توڑ پھوڑ میں مبینہ رول کی وجہہ سے 73سے زائدلوگ جیل میں بند ہیں۔ مقامی پولیس مزید ”بے قصور“ لوگوں کو جیل میں ڈالنے کے کام کے لئے شناخت کرنے کے کام پرلگی ہوئی ہے۔
ایمپلائمنٹ آفس کے سینئر کلرک محمد فاروق کو پولیس نے گرفتاری کرکے اسی رات جیل بھیج دیاتھا۔ ان کے گھر والے اس ثبوت کے ساتھ کہ وہ اس وقت دفترتھے‘ پولیس سے رجوع ہوئے جس کے بعد فاروق کو رہا کردیاگیا۔
دیگر تین لوگ عتیق احمد‘ شعیب اور خالد کو بھی اس وقت رہا کردیاگیاجب پتہ چلا ہے کہ وہ تشدد کے دوران میرٹھ کے اسپتال میں اپنے بیمار رشتہ دار سے ملاقات کے لئے گئے ہوئے تھے۔
سپریڈنٹ آف پولیس ست پال انتل نے کہاکہ ”ایک تحقیقات کے بعد اس بات کی جانکاری ملی ہے کہ مذکورہ چاروں لوگ ہجوم کا حصہ نہیں تھے‘ لہذا سی آر پی سی کے دفعہ 169کا استعمال کرتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کردیاگیاہے“۔
مذکورہ ایس پی نے کہاکہ ”تحقیقات جاری ہے اور کسی بھی بے قصور کوسزا نہیں ملے گی“۔ ایس پی انتل نے کہاکہ”تشدد کے بعد ہم نے بڑے پیمانے پر لوگوں کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔
ہم اس معاملے کی نہایت چوکسی سے جانچ کررہے ہیں اور تمام بے قصور لوگوں کو رہا کردیاجائے گا“۔
حال ہی میں لداخ کے رکن پارلیمنٹ جام ینگ تسرینگ نامگیال نے مظفر نگر کے اپنے ہم منصب سنجیو بالیاں کو ایس ایم ایس کرکے کہاتھا کہ وہ کارگل سے تعلق رکھنے والے محمد علی نامی نوجوان کی رہائی میں مدد کریں‘ جس کو ضلع میں سلاخوں کے پیچھے بند کردیاگیاہے۔
بالیان نے مذکورہ مسیج کی ٹی او ائی سے تصدیق بھی کی ہے۔انہوں نے کہاکہ ”لداخ کے رکن پارلیمنٹ کا مجھے ایس ایم ایس موصول ہوہے اور میں نے معاملے پر پولیس سے بات کی ہے۔
امید ہے کہ کارگل سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی بہت جلد رہائی عمل میں ائے گی۔
میں نے پولیس سے کہا کہ اگر نوجوان تشدد میں ملوث نہیں ہے تو اس کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے“۔
مظفر نگر میں زیرتعلیم محمد علی سعادت ہاسٹل میں جب داخل ہورہا تھا اسی وقت پولیس نے انہیں گرفتار کرلیاتھا‘ اسی مقام پرپولیس اور مظاہرین میں تصادم کی صورتحال پیداہوئی تھی۔
تشدد کے بعد ہاسٹل کے متعدد طلبہ کو بھی گرفتار کرلیاگیاہے