سی اے اے‘ این آرسی کے خلاف اورطلبہ کی حمایت ملی جماعتوں کی متحدہ آواز بلند ہوئی

,

   

جمعیتہ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں یونیورسٹیوں کے طلبہ پر ہوئے حملوں کی عدالتی جانچ کرائے جانے کا مطالبہ‘ این آرسی‘ سی اے اے اور این پی آر کو بتایا غیرائینی‘

مظاہرین پر حملے کی مذمت‘ مہلوکین کو مناسب معاوضہ دینے کا حکومتوں سے مطالبہ‘ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘ جماعت اسلامی ہند‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند‘ ملی کونسل‘ مسلم مجلس مشاورت‘

درالعلوم دیو یند کے مہتمم او رمتعدد اہم اور مقتدر شخصیات کی شرکت

نئی دہلی۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی(جے این یو) جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ حیدرآباد یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات پر پولیس اور غنڈوں کے ذریعہ کیے گئے حملوں کے خلاف اب ملی جماعتوں نے اب متحدہ طور پر آواز بلند کی ہے او رمطالبہ کیاہے کہ اس پورے معاملے کی اعلی سطحی عدالتی جانچ کرائی جائے اور قصور واروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔

اس کے ساتھ ہی سی اے اے او راین پی آر‘ این آرسی کو ائین کے خلاف قراردیا گیانیز تشویش کا اظہار کیاگیا۔یہاں جمعیتہ علمائے ہند کے صدر دفتر ایک بہادر شاہ ظفر مارگ ائی ٹی او پر صدر جمعیتہ علمائے ہند مولانا سید ارشد مدنی کی صدرات میں ملی جماعتوں کا ایک نمائندہ اجلاس طلب کیاگیا

جس میں جمعیت‘ ال انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘ جماعت اسلامی ہند‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث‘ ال انڈیا ملی کونسل‘ کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے ذمہ داران کے علاوہ درالعلوم دیو بند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی‘ نائب مہتمم مولانا عبدالخلاق مدراسی‘

متعدد اہم او رمقتدر شخصیات نے ملک کی مختلف ریاستوں سے شرکت کی۔ملی جماعتوں کے نمائندہ اجلاس میں شہریت ترمیمی قانون 2019این آرسی او راین پی آر کے مختلف پہلوں اور اس کے خلاف ملک گیر سطح پر چلنے والی تحریک کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے قرارداد منظور کی گئی۔

اس میں کہاگیا’ء’دینی وملی تنظیموں کا یہ اجتماع شہریت ترمیمی قانون 2019این پی آر اور این آرسی کے قوانین کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

شہریت ترمیمی قانون نہ صرف ملک کی تکثیری حیثیت کے خلاف ہے بلکہ دستور ہند سے بھی متصادم ہے۔

یہ قانون مذہب کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے اور دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات 14‘15‘اور21سے براہ راست متصادم ہے نیز دستورکی تمہید کے بھی خلاف ہے۔

اسی طرح ملی تنظیموں کا احساس ہے کہ این آرسی کے ذریعہ آسام میں افرتفری پیدا ہوئی ہے اور شہریوں کو محض اس بنیاد پر کہ ان کے دستاویزات میں املے کی غلطیوں تھیں‘ این آرسی سے خارج کردیاگیاہے۔

ملی تنظیموں کا احساس ہے کہ اب جو این پی آر لایاگیاہے وہ دراصل این آرسی کی ہی ابتدائی شکل ہے نیز اس میں 2010کے این پی آر سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔ اجلاس کا مطالبہ ہے کہ سی اے اے سے مذہبی تفریق کو ختم کیاجائے۔