سی اے اے کیخلاف مسلم لیگ و دیگر کی عرضیاں سپریم کورٹ میں قبول

   

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو شہریت ترمیمی قانون 2024 پر روک لگانے کیلئے انڈین یونین مسلم لیگ و دیگر فریقوں کی درخواستوں پر 19 مارچ کو سماعت کرنے سے اتفاق کیا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے درخواست گزاروں کے وکیل کپل سبل کی درخواست کو قبول کیا۔ اس معاملے پر فوری سماعت کا مطالبہ کرتے ہوئے سبل نے کہاکہ سی اے اے 2019 میں پاس ہوا تھا۔ اس وقت کوئی اصول نہیں تھے۔ اس لیے کوئی پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔ اب انہوں نے انتخابات سے قبل قوانین کو نوٹیفائی کر دیا ہے۔ شہریت دی گئی تو اسے تبدیل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔اس لیے عبوری درخواست کی سماعت کی جا سکتی ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی درخواست گزار کو شہریت دینے پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے بعد بنچ نے کہا کہ وہ ان تمام درخواستوں کی فہرست بنائے گی جو منگل کو ہونے والی سماعت کیلئے قواعد پر روک لگانے کی درخواست کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 237 درخواستوں کے پورے بیاچ کو تازہ درخواستوں کے ساتھ درج کیا جائے گا۔کیرالا کی مسلم لیگ سمیت کئی فریقوں نے عرضی داخل کی ہے۔مرکزی حکومت نے 11 مارچ کو شہریت (ترمیمی) قواعد 2024 لاگو کئے۔
جو 2019 کے متنازعہ سی اے اے کو مؤثر طریقے سے نافذ کرتا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے سی اے اے کیلئے قواعد جاری کیے جانے کے ایک دن بعد، کیرالا کی سیاسی جماعت انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور ان قوانین کے نفاذ پر روک لگانے کی درخواست کی تھی۔انڈین یونین مسلم لیگ نے مطالبہ کیا کہ متنازعہ قانون اور ضوابط پر روک لگائی جائے اور اس قانون کے فوائد سے محروم مسلم کمیونٹی کے لوگوں کے خلاف کوئی زبردستی قدم نہ اٹھایا جائے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کے علاوہ ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا آسام اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، دیببرتا سائکا اور آسام سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عبدالخالق اور دیگر نے بھی قواعد پر روک لگانے کیلئے درخواستیں دائر کیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ قواعد واضح طور پر صوابدیدی ہیں اور لوگوں کے ایک طبقے کے حق میں محض ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر غیر منصفانہ فائدہ اٹھاتے ہیں، جو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کے تحت جائز نہیں ہے