سی اے اے : ہندوستان کی ساکھ متاثر

   

رام پنیانی
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے تناظر میں یو این ہائی کمشنر میشل باشلے نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرتے ہوئے سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ کے دستوری جواز کو چیلنج کیا ہے کیونکہ وہ سی اے اے کی ناقد ہیں۔ اس کے جواب میں ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے اُن کی تنقید کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ (یو این ایچ سی آر) سرحد پار دہشت گردی کے مسئلہ پر غلط فہمی میں مبتلا ہے اور اسے اَن دیکھا کرتا رہا ہے۔
سردست مسئلہ بے شمار افراد بنیادی طور پر مسلمانوں کو بے مملکت قرار دیئے جانے کا اندیشہ ہے۔ موجودہ مسئلہ زائد از 120 کروڑ ہندوستانی آبادی کی طرف سے جوابات؍ دستاویزات کا جائزہ لینے کا غیرمعمولی عمل ہے اور دستاویزات کی تنقیح جیسا کہ آسام میں دیکھنے میں آیا، ایسا نتیجہ پیش کرے گی جو حقیقت سے بعید ہے۔ مسئلہ سی اے اے پر زبردست مباحث ہورہے ہیں اور بڑی تعداد میں گروپوں کی طرف سے شدید تنقید اور آزاد ہندوستان میں کسی حکومتی اقدام پر اب تک کی سب سے بڑی اجتماعی مخالفت کے باوجود حکومت اس عمل کو آگے بڑھانے اٹل ہے۔ یہ عمل خطرناک حکومتوں کے اقدامات کی مانند ہے، جو فرقہ پرست اور اپنے شہریوں کے تئیں بے رحم ہوتے ہیں؛ جو شہریت، نسل وغیرہ کی بنیادوں پر بڑی تعداد میں لوگوں کو ختم کردینے میں ملوث ہوئے ہیں۔
وزیر خارجہ کا ادعا ہے کہ یہ ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے، اور اقتدار اعلیٰ سے تعلق رکھتا ہے! جہاں تک اقتدار اعلیٰ کا معاملہ ہے، ہمیں صاف طور پر سمجھ لینا چاہئے کہ موجودہ دور میں کوئی بھی مقتدر اعلیٰ طاقت کو شہریت کے مسئلہ کو عدم تعصب کے اُصول کے مطابق دیکھنا پڑے گا، جس کی صراحت بین الاقوامی معاہدہ برائے دیوانی اور سیاسی حقوق (ICCPR) کے آرٹیکل 26 میں کی گئی ہے۔کیا ایسی پالیسیاں جو بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں اور اُن کی شہریت پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے، ان کو بالکلیہ ’داخلی‘ معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ اب جب کہ دنیا ’گلوبل ولیج‘ میں بدل گئی ہے، بعض عالمی قواعد گزشتہ چند دہوں میں وضع کئے گئے ہیں۔ انسانی حقوق اور نقل مکانی سے متعلق قواعد ترتیب دیئے گئے ہیں۔ انڈیا نے بھی ایسے کئی معاہدوں بشمول آئی سی سی پی آر پر دستخط کئے ہیں، جو دیگر ملکوں کے پناہ گزینوں سے نمٹنے کیلئے قواعد سے متعلق ہیں۔

سوامی ویویکانند کی شکاگو تقریر کو بھی یاد کیجئے، جس میں کہا گیا کہ بھارت کی عظمت دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آسرا دینا رہی ہے۔ آج کوئی تتاریائے اُپنیشد کے ’اتیتھی دیووبھاوا‘ یا مہااُپنیشد کے ’وسودَھیوا کٹم بکم‘ کی بات بھی نہیں کررہا ہے۔ بس باتیں ہورہی ہیں تو مختلف آرگنائزیشنس کے اقدار اور آراء کے تعلق سے ہورہی ہیں، جو دنیا بھر میں تمام افراد کے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں ہندوستان اقوام متحدہ کو ’بیرونی فریق‘ کہہ رہا ہے، جس کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں کیونکہ اس کا تعلق انڈیا کے اقتدار اعلیٰ سے ہے۔
سچائی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے معاہدوں پر چونکہ مختلف ملکوں نے دستخط کئے ہیں، اس لئے یو این کے ادارہ جات مختلف مملکتوں کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور مختلف ملکوں اور مختلف عالمی اداروں میں عدالتوں کے ’دوست فریق‘ کے طور پر قانونی سطح پر مداخلت کرتے رہے ہیں۔ یو این ہائی کمشنر انسانی حقوق نے مختلف قانونی پلیٹ فارمس پر خود کو دوست فریق کے طور پر پیش کیا ہے۔ چند مثالیں: یو ایس سپریم کورٹ، یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اور انٹر امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس میں مداخلت ہے۔ ان کا مقصد عدالتوں کی ایسے شعبوں میں مدد کرنا ہے جہاں یو این ادارہ جات کو مہارت حاصل ہے۔ اس بارے میں مہارت مختلف اقوام کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس طرح کی مداخلتیں اقوام کو یاددہانی بھی کراتی ہیں کہ کیا عالمی اُصول وضع کئے گئے ہیں اور ہر مملکت کی اُن اقدار کے تئیں کیا ذمہ داریاں ہیں جو ایک مدت میں وضع کئے گئے ہیں۔ اروند نرائن ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کراتے ہیں کہ ’’کمیشن نے یورپی عدالت انسانی حقوق میں اسپین اور اٹلی کے معاملوں میں مداخلت کی ہے تاکہ پناہ گزینوں کو اُن کیلئے ناسازگار وطن کو واپس ہونے کیلئے مجبور نہ کرنے کے اُصول پر زور دیا جاسکے۔ اسی طرح یو این نے وسطی افریقی جمہوریہ کے خلاف ایک کیس میں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مداخلت کی ہے تاکہ جنگی جرم کے طور پر ریپ کے بارے میں بین الاقوامی علم قانون پر وضاحت کی جاسکے۔ وقفے وقفے سے مختلف تنظیمیں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ مختلف ملکوں کے انسانی حقوق کے موقف کی نگرانی کرتی رہتی ہیں۔ اس سے متعلقہ ملکوں کو الجھن کی صورتحال پیش آتی ہے اور وہاں کی حکومتیں انھیں پسند نہیں کرتی ہیں۔

’داخلی معاملہ‘ ، ’اقتدار اعلیٰ‘ اور ’اُصول برائے انسانی حقوق‘ کے درمیان اس تضاد کی کس طرح یکسوئی کی جاسکتی ہے؟ یہ مشکل سوال ہے خاص طور پر ایسے وقت جب آزادی کے اشاریہ جات اور جمہوری اقدار دنیا بھر مائل بہ زوال ہیں۔ انڈیا بھی ان اصولوں کے معاملے میں گراوٹ کا شکار ہوا ہے۔ ہندوستان میں اقوام متحدہ ادارہ کی مداخلت کو ہم مساوات اور عدم تعصب کے زاویہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ جمہوری جذبہ ہمارے لئے حوصلہ کا کام کرنا چاہئے کہ ایسے امور پر نظرثانی کریں جو مملکت نے طے کئے ہیں۔ شاہین باغ دہلی کی عظیم اجتماعی تحریک کے پس منظر میں مملکت کو محاسبہ کرنے اور بین الاقوامی ضابطہ اخلاق، اور عالمی گھرانہ کے جذبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
عام خیال ہے کہ جب عیسائیوں پر کندھامل میں ظلم و ستم ڈھایا گیا، عالمی عیسائی برادری کی آواز میں معقول حد تک وزن نہیں تھا۔ موجودہ طور پر دہلی قتل عام کے تناظر میں کئی مسلم اکثریتی ملکوں نے آواز اٹھائی ہے۔ جہاں مسٹر مودی کا دعویٰ ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ اُن کے اچھے تعلقات کانگریس جیسی پارٹیوں کیلئے دل جلانے والا معاملہ ہیں، وہیں انھیں اپنی خودستائی پر مکرر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ طور پر ایران، ملائیشیا، انڈونیشیا اور کئی مسلم اکثریتی ممالک نے ہندوستان میں مودی حکومت کی روش کے خلاف لب کشائی کی ہے۔ ہمارے پڑوسی بنگلہ دیش میں بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے خلاف مختلف احتجاج دیکھنے میں آئے ہیں۔ ’داخلی معاملہ‘ وغیرہ سے کہیں زیادہ اس سارے مسئلہ کے اخلاقی پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں ضابطہ اخلاق کی راہ پر چلنے کا فخر ہے۔ موجودہ تناظر میں اس کا کیا مطلب ہے جب دیسی میڈیا کا بڑا حصہ مملکت کا غلام بنا ہوا ہے۔ چنانچہ گلوبل میڈیا کے گوشہ نے اسے منظرعام پر لایا جو کچھ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ امید ہے ہندوستانی حکومت اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تئیں جاگے گی، اور سمجھے گی کہ سی اے اے اور دہلی میں پیش آئے ہولناک تشدد کے سبب دنیا میں ہندوستان کی ساکھ ابتر ہوتی جارہی ہے۔
ram.puniyani@gmail.ocm