شاہین باغ احتجاجیوں کو امیت شاہ سے ملنے نہیں دیا گیا ، پولیس نے راستہ روکا

,

   

علاقہ پولیس چھاؤنی میں تبدیل ، جگہ جگہ رکاوٹیں ، دادیوں نے پولیس سے مل کر آگے جانے کی التجا کی ۔ انکار پر احتجاجی مقام پر واپس

٭ مسلم بہنوں کے ساتھ زیادتیوں پر تین طلاق لانے والے مودی کو
احتجاج کرنے والی لاکھوں مائیں بہنیں نظر نہیں آرہی ہیں
٭ مودی کو ہم نے شاہین باغ مدعو کیا تھا ، ہم ان کا اپنے بیٹے
جیسا استقبال کریں گے
٭ 75 تا 95 سال کی ضعیف خواتین کا حوصلہ اور عزم مزید مضبوط

نئی دہلی۔16فبروری(سید اسماعیل ذبیح اللہ)شاہین باغ کے احتجاجیوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی رہائش گاہ تک مارچ نکالنے کی کوشش کی ۔ شہریت قانون پر مذاکرات کیلئے وہ آگے بڑھ رہے تھے لیکن پولیس نے انہیں امیت شاہ کے گھر کے بالکل قریب روک دیا ۔ شہریت ترمیمی قانون( سی اے اے)‘ قومی رجسٹر برائے شہریت( این آرسی) قومی آبادی رجسٹر(این پی آر) کے علاوہ یونیفارم سیول کوڈ( یو سی سی ) کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میںپچھلے 65دنو ں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے اور مذکورہ احتجاجی دھرنے میں موجود ہزاروں خواتین کی قیادت کوئی اور نہیںبلکہ علاقے کی تین معمر دادیاں کررہی ہیں جن کی عمریں 75سال سے 95سال تک کی ہیں اور شاہین باغ کو تین دادیوں نے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میںلادیاہے۔حالانکہ پچھلے دوماہ کے دوران شاہین باغ میںدھرنے پر بیٹھی ہوئی ہزاروں کی تعداد میں خواتین کے حوصلوں کوپست کرنے کی کوششیں کی گئیں۔سال کے آغاز پر ماہ جنوری کے دوران پچھلے سو سال میں اس قدر سردی نہیںتھی جو اس مرتبہ دہلی کی عوام کو سردی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی ہوئی دادیوں کے بشمول ہزاروں خواتین نے سردی کی پرواہ کئے بغیر اپنے احتجاج کو جاری رکھا۔دہلی اسمبلی الیکشن 2020میں بھی شاہین باغ بی جے پی کی انتخابی مہم کا عنوان رہا اور دہلی سے منتخب بی جے پی کے تمام اراکین پارلیمنٹ‘ وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہر ریالی‘جلسہ ‘ جلسوں اور میٹنگ میں شاہین باغ کا تذکرہ کیااوراسمبلی الیکشن کے نتائج برآمد ہونے کے بعدشاہین باغ کو برخواست کرنے تک کااعلان کیاتھا۔ شاہین باغ کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور یہاں تک کہاگیا کہ پانچ سو روپئے اور ایک بریانی کے پیکٹ کے عوض میں شاہین باغ کی عورتیں احتجاجی دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ مگر نہ تو شاہین باغ کی دادیوں کے حوصلہ پست ہوئے او رنہ ہی شاہین باغ کے احتجاجی دھرنے میںبیٹھی ہوئی خواتین نے دھرنے سے دستبرداری اختیار کرنے کی سونچی۔ دوروزقبل ایک خانگی نیوز چیانل پر انٹرویو کے دوران مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے کہاتھا کہ جو کوئی بھی سی اے اے کے متعلق وضاحت چاہتا ہے وہ میرے دفتر سے رجو ع ہوں ‘ تین دنو ں میں انہیں مجھ سے ملاقات کے لئے وقت دیاجائے گا

اور اگر وہ چاہیں تو مجھ سے سی اے اے کے متعلق تفصیلی طور پر اپنے شکوک وشبہات دور کرسکتے ہیں۔امیت شاہ کے اعلان کے بعد سے مسلسل شاہین باغ کی دادیوں اور مظاہرین پر مختلف گوشوںسے دبائو ڈالاجارہاتھا کہ ہ بات چیت کے لئے وزیرداخلہ امیت شاہ کے دفتر چلیں۔ بالخصوص الکٹرانک میڈیا کے چند ادارے جن پر مودی حکومت کی آئو بھگت کا الزام ہے نے اپنے طورپر شاہین باغ کے مظاہرین اور وزیرداخلہ امیت شاہ کے درمیان امکانی ملاقات کی خبر بھی چلا دی۔ہفتہ 15فبروری کی رات شاہین باغ احتجاجی دھرنے کے منتظمین اور دادیوں کے درمیان میں طویل بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور پہلے تو دادیوں نے ملاقات کے لئے جانے سے انکار کردیا مگر لوگوں کے سمجھنے کے بعد اس بات کااعلان کیاکہ ’’ وہ ملاقات کے لئے ضرور جائیں گے مگر وہ اکیلے نہیںبلکہ دہلی کے علاوہ یوپی اور بہار میں جاری احتجاجی دھرنوں میںشامل عوام کے ساتھ بات کرنے کے لئے جائیںگے‘‘۔احتجاجی دھرنے کی قیادت کرنے والے دادیوں میں سے ایک 75سالہ سروری نے ’’ احتجاجی دھرنے کا مقصد سی اے اے‘ این آرسی ‘ این پی آر اور یوسی سی جیسے سیاہ قوانین کے خلاف ہے اور اس کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولیس کی بربریت کے بعد سے ہوئی ہے۔ ہمارے اعلان پر ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ حکومت کے سیاہ قوانین کے خلاف سڑکوں پر اتر ائے ہیں‘ ملک بھر میںجاری احتجاجی مظاہروں کی قیادت عورتیں کررہی ہیں‘ کیونکہ مردوں اور نوجوان بچوں کے ساتھ پولیس بربریت کررہی ہے‘ ہم پر الزامات لگائے گئے کہ ہم پیسے لے کر یہاں پر بیٹھے ہیں‘ ہمیں بریانی کے پیاکٹس دئے جارہے ہیں اور اس وجہہ سے ہم یہاں پر ہیں ۔ الزامات عائد کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں سونچا کہ شدید سردی کے باوجود میری جیسی بے شمار دادیاں احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے یہاں پر آئے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ جس طرح پارلیمنٹ میں سی اے اے کا اعلان کیاتھا ‘ ٹھیک اسی طرح پارلیمنٹ میںکھڑے ہوکر اعلان کرے کہ سی اے اے ‘ این آرسی او راین پی آر نہیںلائیں گے۔ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش نہیںکریں گے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ہیںانہیں سزا دیں گے‘‘۔ محترمہ سروری نے کہاکہ اس اعلان کے ساتھ ہی ہم خود اس احتجاجی دھرنے سے دستبرداری اختیار کرلیںگے۔ نریندر مودی اورامیت شاہ تو کہتے تھے مسلم بہنوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں‘ اس لئے ہم نے تین طلاق کو جرم قراردینا والاقانون لایاہے مگر انہیں احتجاجی مظاہرہ کررہی لاکھوں مائیں اور بہنیں اب نظر نہیںآرہی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پہلے بھی ہم نے امیت شاہ او رنریندر مودی کو شاہین باغ مدعو کیاتھا وہ ائیں ہم سے بات کریں ۔ہم یہاں پر ان کا اپنے بیٹے جیسے استقبال کریں گے۔ان کے بلائیںلیں گے مگر وہ نہیںائے اور اب ہمیں بلارہے ہیں۔محترمہ سروری نے کہاکہ یقینا ہم جائیں گے اور انہوں نے اتوار 16فبروری کے روز دن میں دوبجے دہلی بھر میںاحتجاج کررہی خواتین کو شاہین باغ پہنچے کی دعوت دی اور کہاکہ ہم سب امیت شاہ سے بات کرنے کے لئے جائیں گے۔دادیوں کے اعلان پر بھاری تعداد میں لوگ اتوار کے روز شاہین باغ پر اکٹھا ہوگئے اور پولیس کی جانب سے اجازت ملنے کا انتظار کرنے لگے ۔ دادیوں کے چلو امیت شاہ کے گھر اعلان کے پیش نظرشاہین باغ سے جامعہ نگر تک پولیس کی بھاری جمعیت علاقے میںمتعین کردی گئی تھی۔سہ پہر تین بجے شاہین باغ کی دادیاں پولیس سے رجوع ہوئیں اور ان سے وزیر داخلہ امیت شاہ کے گھر جانے کا استفسار کیا اورپولیس سے کہاکہ وہ اپنے طورپر نہیں بلکہ امیت شاہ کے بلانے پر جانا چاہتی ہیں مگر پولیس نے اجازت دینے سے انکار کیا اور کہاکہ پولیس کو وزرات داخلہ سے ایسی کوئی جانکاری نہیںملی ہے کہ شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین بالخصوص دادیوں کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے مدعو کیاہے۔پولیس سے بات چیت کے بعد شاہین باغ کی دادیاں اپنے لشکر کے ساتھ واپس احتجاجی دھرنے پر اگئیں۔ اس دوران دادیوں کے اس مارچ میں بھیم آرمی کے کارکنوں کے علاوہ دہلی کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات بھی شامل ہوگئے۔ہزارو ںکی تعداد میںلوگ شاہین باغ میں اکٹھا ہوگئے تھے جن کے ہاتھوں میں قومی پرچم تھا اورہ وہ مخالف سی اے اے‘ این آرسی ‘ این پی آر وہ یونیفارم سیول کوڈ نعرے لگارہے تھے۔ حالات کے پیش نظر پولیس نے شاہین باغ کے اطراف واکناف میںنصب بریکیٹس میںبھی اضافہ کردیاتھا۔ پولیس کے آگے جانے دینے سے انکار کے بعد حسب روایت شاہین باغ کی سڑک پر احتجاجی دھرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔