شاہین باغ سے حکومت کا اب بھی خوف

   

منی شنکر ایئر

شاہین باغ کی احتجاجی خواتین نے جس مقصد کے لئے احتجاجی مظاہرہ منظم کیا تھا یقینا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں کیونکہ حکومت اور حکام ان کا احتجاجی مظاہرہ ختم کروانے میں ناکام رہے۔ ان خواتین نے احتجاج کے دوران بار بار یہی کہا کہ حکومت اور حکام آئیں اور ان سے بات کریں لیکن کسی نے ان خواتین کے ساتھ بات کرنے کی ہمت نہیں کی۔ حکام کا بات چیت کے لئے خواتین سے رجوع ہونے سے گریز ہی احتجاجی خواتین کی کامیابی ہے۔ آپ کو یاددلادیں کہ 100 دن سے زائد عرصہ تک شاہین باغ میں مسلم خواتین نے احتجاج کیا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس احتجاج میں بلالحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل دوسری خواتین بھی شامل ہوگئیں۔ اس طرح شاہین باغ احتجاج فرقہ پرستی کے خلاف قومی اتحاد اور سیکولر ازم کی ایک بہترین مثال کے طور پر ابھرنے میں کامیاب رہا۔ جہاں تک اس احتجاج کے ختم ہونے کا سوال ہے اسے حکومت ختم کروانے میں ناکام رہی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ آفات سماوی (کورونا وائرس) کے باعث یہ احتجاج ختم کیاگیا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ کورونا وائرس کی وباء نہ پھوٹ پڑتی تب یہ احتجاج ختم نہیں ہوتا۔ اگرچہ شاہین باغ کی خواتین کا احتجاج اپنے اختتام کو پہنچا ہے لیکن ان خواتین اور ان کے حامیوں پر مجھے اور میرے ارکان خاندان کو فخر ہے کہ ان لوگوں نے اور ہم نے اپنا کاز نہیں چھوڑا ہے، بلکہ یہ جو وقفہ آیا ہے وہ دراصل وباء کے باعث آیا وقفہ ہے، جبکہ جامعہ نگر کی خواتین کے قلوب میں یہ جدوجہد جاری ہے۔ ان ہی خواتین نے اس غیر معمولی تاریخی مظاہرہ کا آغاز کیا تھا اور شاہین باغ کے باعث ہی ملک بھر کے مختلف مقامات اور محلہ جات میں 100 سے زائد احتجاجی کیمپس قائم کئے گئے۔ ان محلہ جات میں مقامی طور پر لوگوں نے بے شمار احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے حکومت کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ میں نے صرف اپنے سابق پارلیمانی حلقہ مائیلا دوتورائی میں تین منی شاہین باغ مظاہروں سے خطاب کیا۔ یہ ایسے علاقے میں منظم کئے گئے جہاں ہندی یا اردو بولنے والا کوئی نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان رکاوٹ نہیں بنتی۔ فیض احمد فیض کی انقلابی نظم ’’ہم بھی دیکھیں گے‘‘ کا تامل ورژن کافی مقبول ہوا۔ اس نظم کا تامل ترجمہ ایک مقبول ترین نغمہ میں تبدیل ہوگیا۔

ان احتجاجی خواتین نے اپنے مخالفین کو کئی طرح سے مات دی ہے۔ حالانکہ ان کے مخالفین انتہائی طاقتور اور بااثر ہیں۔ تاہم اپنے گھروں کو مقفل کرکے یا بند کرکے یہ خواتین بڑی تعداد میں دن اور رات کے اوقات میں احتجاجی مقام پر پہنچ جاتیں اور پھر دوسری خواتین اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتیں۔ اکثر ہندوتوا کے کارکنوں کا یہ جھوٹا پروپگنڈہ ہے کہ مسلم خواتین ڈری، سہمی اور مظلوم ہوتی ہیں لیکن شاہین باغ کی خواتین نے مسلم خواتین کے تعلق سے پائے جانے والے اس تصور کو غلط ثابت کردکھایا۔ شاہین باغ کو میں اس لئے کامیاب احتجاج قرار دوں گا کیونکہ احتجاجی خواتین نے تشدد کا جواب امن سے دیا۔ ان لوگوں نے کبھی بھی قوم پرستوں یا مذہبی حساسیت کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کی جس سے اپنے ذہنوں میں دقیانوسی تصورات رکھنے والے زعفرانی عناصر کو حیرت میں مبتلا ہونا پڑا۔ ان خواتین نے کبھی تشدد کی بات تک نہیں کی بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے کردار اور عزم و حوصلوں کے ذریعہ متاثر کیا ساتھ ہی انہیں ان کے مقاصد سے متعلق دلائل کے ذریعہ سمجھانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ احتجاجی مظاہرین نے جو شامیانے نصب کئے تھے انہیں ہماری جدوجہد آزادی کے ہیروز یا مجاہرین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ان پر ان کی تصاویر اور اقوال پرنٹ تھے۔ ان میں مہاتما گاندھی، بھگت سنگھ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، جواہر لال نہرو اور ہاں ابوالکلام آزاد کی تصاویر موجود تھیں لیکن واضح طور پر جناح کی کوئی تصویر نہیں دیکھی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ وہاں کوئی اسلامی مبلغ، ملا یا مولانا اور علماء بھی نہیں دیکھے گئے اور سب سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں آنے والوں میں تمام مذاہب کے ماننے والے مرد اور خواتین دونوں شامل تھے۔ ان میں سکھ نمایاں رہے۔ شاہین باغ صرف احتجاجی مرکز ہی نہیں تھا بلکہ وہاں ہر روز عید کا ماحول دیکھا جارہا تھا۔ میری بیٹی ہر ہفتہ وہاں صرف احتجاجی خواتین و لڑکیوں کے ہاتھوں کو مہندی سے سجانے کے لئے ہی نہیں جاتی تھیں بلکہ وہاں بسنت پنچمی اور ہولی منانے کے لئے بھی گئی تھی۔ شاہین باغ دراصل فرقہ وارایت سے پاک ایک ایسے ہندوستان کی نمائندگی کررہا تھا جو شہریوں کے حقوق کے لئے کھڑا ہے۔ حقیقت میں شاہین باغ کثرت میں وحدت اور پرامن بقائے باہم کی مثال بنا ہوا تھا۔ یہ دراصل ایک سیکولر ہندوستان تھا جو مذہب پر مبنی امتیاز کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔

یہ احتجاج پوری طرح عدم تشدد کے گاندھیائی فلسفے پر مبنی تھا یہی وجہ ہے کہ حکومت میں سے کسی میں آگے بڑھ کر مظاہرین سے بات چیت کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہوئی۔ شاہین باغ نے صنفی امتیاز کو بھی ختم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیا میں بھی شاہین باغ کو نمایاں کوریج دیا گیا۔ 100 سے زائد دن تک جاری رہے مظاہرے کے بارے میں خبریں اور تصاویر شائع کئے اور نشر کئے گئے۔ ایک اور اہم بات یہ رہی کہ شاہین باغ کی خواتین نے اپنے کاز کے لئے جدوجہد کرنے کا طلبہ اور نوجوانوں میں حوصلہ پیدا کیا۔