شاہین باغ میں لنگر لگانے والے ڈی ایس بندرا کا نام ایف ائی آر میں شامل

,

   

بندرا کا کہنا ”میں نے کیا غلط کیاہے؟ لنگر لگانا کیا جرم ہے؟“۔
نئی دہلی۔ وکیل سے سماجی جہدکار بنے ڈی ایس بندرا‘ جنھوں نے شاہین باغ میں لنگر لگانے کے بعد سرخیاں بٹوری تھیں‘ ان کا نام اب فبروری2020کے دوران دہلی میں پیش ائے فسادات میں ہلاک ہونے والے کانسٹبل رتن لال کی موت پر دہلی پولیس کی جانب سے درج چارج شیٹ میں شامل کیاگیا ہے۔

مخالف شہریت ترمیمی قانون احتجاج کے دوران شاہین باغ اور چاند باغ میں لنگر(گردوارہ میں کئے جانے والے طعام کا انتظام) منعقد کرنے کے لئے اپنی تین فلیٹس فروخت کرنے کے بعد سے مذکورہ سکھ شخص کی نمایاں طور پر موجودگی تھی

کیا لنگر ایک جرم ہے؟
دی کوئنٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق بندرا کسی بھی تشدد میں شامل ہونے اور کسی ایک سیاسی جماعت کا حصہ ہونے کے لئے الزامات کو مسترد کردیاہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ ”جیسا کے میں نے آپ سے کہا‘ میں نے محض ایک لنگر لگایاتھا۔ یہ سکھوں کے عقائد کا حصہ ہے۔ تمام فرقوں کے لوگ بغیر کسی امتیازی کے لنگر میں کھاتے ہیں۔چاہئے وہ احتجاج میں حصہ لینے کے لئے پنجاب سے ائے ہوئے سکھ ہوں یا پھر مقامی مسلمان۔

اور دیگر بھی جو ویجٹرین کھانا چاہتے ہیں وہ آسکتے ہیں“۔انہوں نے مزید کہاکہ”ہم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی سکھ مسلم بھائی چار ہ پرایک مثال قائم کی ہے۔ محض میری منشاء بھائی چارہ کی ہے۔ ہماری کوششوں کو سراہانے کے بجائے ہمیں بدنام کیا جارہا ہے“

ٹوئٹر پر ردعمل
مائیکر بلاگینگ سائیڈ پر جہاں اسٹانڈ ویتھ ڈی ایس بندرا ٹرینڈ کررہا ہے وہاں نٹیزن کے نشانے پر دہلی پولیس ائی ہوئی ہے۔ یہاں پر کچھ ردعمل یہاں پر پیش کئے جارہے ہیں۔

https://twitter.com/faisalnadeem93/status/1273932425865752576?s=20

https://twitter.com/_faiz007/status/1274027470346309632?s=20

https://twitter.com/Hifzu__/status/1274041382462607360?s=20

شاہین باغ
شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے)‘ امکانی قومی راجسٹرار برائے شہریت(این آرسی) اور این پی آر کے خلاف 15ڈسمبر سے جاری احتجاج کا شاہین باغ مرکز بناہوا تھا۔

کرونا وائرس کی وباء کے پیش نظر مذکورہ احتجاجی خواتین احتیاط برتے ہوئے ایک دوسرے سے کم از کم ایک میٹر کا فاصلے رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔