شدید بارش سے سندھ کے آثار قدیمہ کو خطرات

   

کراچی : پاکستان میں مسلسل بارش سے آنے والے سیلاب سے نہ صرف انسانوں اور جانوروں کی جانوں کا زیاں ہوا ہے بلکہ آثار قدیمہ کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اس کے سبب مو ہن جو دڑو کی سب سے مشہور خصوصیات میں سے ایک ’ماؤنٹ آف ڈیڈ‘ نیلے ترپال سے ڈھکی ہوئی ہے ۔جہاں موسلا دھار بارشوں نے صوبہ سندھ کا بڑا حصہ ڈبو دیا وہیں ان کھنڈرات کو بھی نہیں بخشا اور کارکن ٹیلے کی برقرار رہ جانے والی دیوار کو مضبوط بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ پانی چینلز کو کاٹتے ہوئے سائٹ کے غیر کھدائی والے حصوں میں گرتا ہے ۔جہاں حکومت اور فلاحی تنظیمیں مون سون کی طوفانی بارشوں سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو ریلیف فراہم کرنے اور ان کی بحالی کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں، وہیں صوبے بھر میں ثقافتی ورثے اور آثار قدیمہ کے مقامات کو بھی مرمت کی اشد ضرورت ہے ۔ قلعے ، مقبرے اور اوطاق وغیرہ جو اس خطے کے شاندار ماضی کی علامت ہیں اب گرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔موہن جو دڑو میں بارشوں نے کھدائی والے علاقوں کو نقصان پہنچایا ہے اور جمع شدہ پانی کھدائی والے علاقوں میں داخل ہو گیا ہے ، جس سے مٹی ڈھیلی ہو گئی ہے اور نتیجتاً دیواریں جھک رہی ہیں۔یہ سائٹ وادی سندھ کی تہذیب کے بچ جانے والے ابتدائی مقامات میں سے ایک ہے اور ڈھائی ہزار قبل مسیح قدیم اور پاکستان کی قدیم تاریخ کے ساتھ باقی ماندہ رابطوں میں سے ایک ہے ۔لاڑکانہ میں، جہاں صوبے میں سب سے زیادہ بارشیں ہوئیں، وہاں شاہ بہارو اور تجار کی عمارتیں شہر کے وسط میں نکاسی آب اور سیوریج لائنوں سے بہنے والے بارش کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔تاہم میاں نور محمد کلہوڑو قبرستان (مورو میں) کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا جہاں 6 مقبروں سمیت کئی قبریں مکمل طور پر مٹ چکی ہیں اور کئی کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے اور جو باقی بچی ہیں ان کی دیواریں گرنے والی ہیں۔