شوربہ کچن اور تحقیقاتی ایجنسیاں

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہم نے سوچا کہ ہم صرف اور صرف حروف تہجی کے سوپ میں ہیں۔ مثال کے طور پر انکم ٹیکس، سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ، ایس ایف آئی او، این سی بی،این آئی اے اور دیگر میں آخر بڑا بھائی کون ہے؟ ان میں اپ اسٹارٹ کون ہیں؟ ان میں دخل انداز کون ہے؟ ان میں سے سب سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ اور اقتدار پر فائز طاقتور کے پسندیدہ کون ہیں؟ یہ ایسے سولات ہیں جو اکثر اس وقت پوچھے جاتے ہیں جب دو لوگ چائے/کافی یا گپ شپ پر ملتے ہیں اور جب تین یا تین سے زیادہ لوگ جمع ہوجاتے ہیں ہر کوئی بات کرنا شروع کردیتا ہے یا غیر فعال رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر خاموشی بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جسے اجتماعی خاموشی ہو۔ مذکورہ تمام سوالات کو حل کرنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ ہم ہر پولنگ اسٹیشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین لگائیں۔ تمام امیدواروں ایجنسیوں کی فہرست تیار کریں اور لوگوں سے ان کی ترجیحی ایجنسی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کریں۔ ایسے افراد جن کی عمر 85 سال سے زائد ہو وہ اپنے گھروں سے حق رائے دہی استعمال کرسکتے ہیں اس میں NOTA کا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ بہرحال آگے بڑھتے ہیں اگر دیکھا جائے تو سوپ کی جنگوں میں جس نئی ڈش کا اضافہ ہوا وہ CAA-NRC۔ این آر سی کا مقصد و ارادہ تمام شہریوں کے ناموں کا نیشنل رجسٹریشن اندراج کروانا ہے۔ اس کے لیے ایک حارحانہ و ظالمانہ طریقہ کار کو اپنایا گیا جب حب وطن مصنفین نے یہ پایا کہ این آر سی سے لاکھوں ہندوئوں کو نکالدیا گیا کیوں کہ ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں تھے۔ ایسے میں ان لوگوں نے شہریت ترمیمی قانون کی ایجاد کی۔ یہ ایسے قانون ہے جو افغانستان بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والی تمام مظلوم اقلیتوں کو سوائے مسلمانوں کے ہندوستانی شہریت عطا کرنا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ شہریت ترمیمی قانون کے تحت مذکورہ تینوں ملکوں کے ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ اور جین مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی لیکن اس قانون کے ذریعہ سری لنکا میں ظلم و جبر کا شکار ٹامل باشندوں اور نیپال و مائنمار کے مظلوم ہندوستانی نژاد لوگوں کے مفادات نظرانداز کردیئے گئے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ جہاں تک NRC کا سوال ہے یہ صرف آسام میں کیا گیا جبکہ سی اے اے 11 مارچ 2024ء کو مینو میں شامل کیا گیا۔ اس طرح NRC-CAA کا ایک SAMPLE UCHCAA NYAYALAYA سر دست ٹسٹ کیا گیا۔ بڑی تاخیر سے ہم اس حقیقت سے آشنا ہوئے کہ ہمارے پاس ایک Numeric Soap بھی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہر شخص ایک نمبر ہی جانتا تھا اور وہ بورڈ ایگزامنیشن کا رول نمبر ہے اور پھر سب نے دیکھا کہ جلد ہی بے شمار نمبرات ہماری زندگیوں میں داخل ہوگئے۔ مثال کے طور پر راشن کارڈ نمبر، ووٹر آئی ڈی نمبر، دو پہیوں کی گاڑیوں یا کاروں کا رجسٹریشن نمبر، لینڈ لائن ٹیلی فون نمبر، پاسپورٹ نمبر، موبائل نمبر اور آدھار نمبر جو ہمہ گیر بن گیا ہے۔ ہر معاملہ میں آپ سے آدھار نمبر طلب کیا جاتا ہے چاہے وہ بینک اکائونٹ کھلوانا ہو، بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوانا ہو، سرکاری اسکیمات سے استفادہ کرنا ہو، غرض ہر کام کے لیے آدھار کارڈ لازمی ہوگیا ہے لیکن اب ایک ایسا نمبر آیا ہے جو دوسرے تمام نمبروں کو مات دے گا اور وہ ہے الیکٹورل بانڈ کا حرفی ہندسی نمبر یہاں تک کہ ہندوستان کی سب سے طاقتور عدالت عظمی (سپریم کورٹ) بھی خوف زدہ ایس بی آئی کی گرفت سے حرفی نمبرات کو انعام سے نواز نہیں سکتی ویسے بھی کچھ دنوں سے EB-SBI، ای ڈی۔ سی بی آئی سے کہیں زیادہ طاقتور دکھائی دیتی ہے۔ آج کل ٹائون میں ایک نیا گیم آیا ہے اور اس کھیل یا گیم کا ورژن حرف کو جوڑیئے کہلاتا ہے۔ اس گیم کا پہلا فاتح یا Winner سی بی آئی۔ ای ڈی ہے۔ ایسے میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ پریشان تھا۔ ای ڈی نے زور دے کر کہا کہ وہ سرفہرست شراکت دار ہے اور ED-CBI کو فاتح قرار دیا جانا چاہئے۔ چونکہ جیوری باہر ہے ایسے میں فیصلہ توقع ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے ووٹوں کی گنتی کے بعد صادر کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر انتخابات کے تمام مصارف بچ جائیں گے۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں ایک ملک ایک انتخابات کیا مکانات کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس نے اپنی رپورٹ اور سفارشات بھی پیش کردیئے ہیں۔ لیکن اس کمیٹی نے اس قدر بڑی بحث (انتخابی مصارف کی) پر غور ہی نہیں کیا اگر کمیٹی اس بجٹ پر غور کرتی تو پھر وہ ایک ملک اور انتخاب نہیں (One Nation, No Election) کی سفارش پیش کی ہوتی۔ جب بات اس طرح کی ہوتی ہے تو CBI-IT سی بی آئی ۔ ای ڈی یا ای ڈی۔ سی بی آئی سے بہت زیادہ پیچھے نہیں ہے۔ اگر سی بی آئی نقدی ضبط کرتی ہے تو وہ رقم انکم ٹیکس کی ہوتی ہے۔ آپ ذرا سوچئے اگر انکم ٹیکس رقم ضبط کرتا ہے تو کیا ہوگا۔ عام عقل تو یہی کہتی ہے کہ اگر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ رقم ضبط کرتا ہے تو وہ رقم آئی ٹی کی ہوگی لیکن اب غیر روایتی عقل، عام عقل پر حاوی ہوگئی ہے۔ اگر آئی ٹی رقم ضبط کرتا ہے تو اس کے دو دعویدار ہیں۔ سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ سی بی آئی کا دعوی ہے کہ یہ رقم آمدنی کے معلوم ذرائع یا متناسب رقم سے زیادہ ہے ۔ دوسری طرف ای ڈی یہ دعوی کرتی ہے کہ یہ مجرمانہ طریقوں سے حاصل کردہ آمدنی ہے۔ اس معاملہ پر بھی جیوری خاموش ہے۔ وہ کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ وہ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں آپ کو بتایا کہ اس گیم کا دوسرا ورژن Join the numbers ہے۔ اس ضمن میں آپ کو بتادیں کہ ایس بی آئی (اسٹیٹ بینک آف انڈیا) کو 22217 الیکٹورل بانڈس کے Alpha numeric شناختوں کی اجرائی کے لیے گھسیٹنا پڑا جیسا کہ میں یہ لکھ رہا ہوں الفا عددی سوپ پیش کیا گیا۔ ویسے بھیبہت سے عطیہ دہندگان کے لیے یہ سوپ کڑوا ہوگا اور چند عطیات حاصل کرنے والی جماعتیں التجا کریں گی کہ جب سوپ تیار کیا گیا تھا تب وہ کچن میں نہیں تھے۔ کچھ اور لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ سوپ ان کے گلے سے نیچے نہیں اتارا گیا تھا اور انہیں سوپ کو مجبوراً نگلنا پڑا تھا۔
حروف تجہی، ہندسوں اور الفا نمبرات سے پیدا ہونے والے بحران نے ایسے تناسب کو اپنالیا ہے جس سے قومی مفاد اور حتی کہ قومی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس لیے وکست بھارت (ترقی یافتہ بھارت) کے اہداف کو بڑھانے کے لیے چیاٹ جی پی ٹی کی مدد لی گئی ہے۔ نئے اہداف ہمارے ملک کی قومی مجموعی پیداوار کو دنیا کا سب سے بڑا (نمبر ون) بتانا ہے۔ کسانوں کی آمدنی میں تین گنا اضافہ کرنا 5 کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہے اور ہر ہندوستانی کے بینک اکائونٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانا ہے۔ چیاٹ ۔جی پی ٹی کے علاوہ حروف تہجی کے متبادل کے طور پر مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک انقلابی شناختی ٹول کے ذریعہ عددی اور الفا عدد جو پوشیدہ، ناقابل سماعت، سانس لینے کے قابل اور کھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ ایسے کئی سوپس نے ملک و قوم کے اعضاء کو نقصان پہنچایا اور اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنکھ، کان، ناک زبان جیسے اعضاء کو ایک طویل آرام کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی ایک قدیم کہاوت ہے جس کا اختتام بھلا تو سب بھلا: تو نئی کہاوٹ یہ ہے : جیسا آغاز ویسا انجام، کئی انواع و اقسام کے سوپ کے لیے بہت بہت شکریہ ۔ ہم واپس 2004میں جائیں گے جہاں سے یہ شروع ہوا تھا۔ ویسے بھی اچھے دن آنے والے ہیں۔