شک کی سوئی۔وہ کون ہے جس نے اترپردیش میں سی اے اے‘ این آرسی مظاہروں کے دوران لوگوں کو حقیقت میں گولیاں چلائیں ہیں؟

,

   

قومی سطح پر چل رہے سی اے اے‘ این آرسی کے خلاف مظاہروں کا اترپردیش کو بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے جہاں پر ریاست گیردفعہ144نافذ کرتے ہوئے بھاری تعداد میں پولیس کو تعینا ت کردیاگیاہے۔

ریاست میں یہاں پر سب سے زیادہ تشدد کی خبریں سامنے ائیں ہیں جہاں پر جمعرات سے اب تک 18لوگوں کی مظاہروں کے دوران موت ہوگئی ہے۔ پولیس کا ماننا یہ ہے کہ احتجاجیوں میں ”باہری“ اسلامی بنیاد پرست تنظیم جیسے پی ایف ائی شامل ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی متضاد ہے کہ یوپی پولیس نے تمام معاملے کو سلجھانے کے لئے غلط طریقہ اختیار کیا‘ جس کی شروعات پرامن اختلاف رائے پر پولیس کا عامرانہ دعوی جس نے ”جمہوری اقدار کی حفاظت“ کو روک دیاتھا۔

زیادہ تر اموات ”گولیوں کے زخموں“ کی وجہہ سے ہیں مگر یوپی پولیس بارہا یہ بتایارہی ہے کہ اس نے فائیرنگ نہیں کی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ مظاہرین نے ایک دوسرے پر گولیاں برسائیں‘ ٹھیک اسی طرح جس طرح حیدرآباد کی پولیس حیوانات کی ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل میں ملوث چار ملزمین کے ساتھ انکاونٹر میں کیاتھا۔

کانپور کا ایک ویڈیو بھی گشت کررہا ہے جس میں دیکھایاجارہا ہے کہ پولیس ایک جوان بندوق اٹھاکر نشانہ لگاتا ہے اور گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔

دوسری جانب اگر کیرالا نژاد پی ایف ائی نے خود کو یوپی میں کواڈنیشن کے ساتھ لکھنو‘ کانپور‘ واراناسی‘ میرٹھ‘ بھائی راچ‘ اگرہ‘ فیروز آباد او رگورکھپور میں یہ حملہ انجام دئے ہیں‘ تو پولیس کی بے مثال نہ اہلی ثابت ہوئی ہے‘ جو کوئی کم پریشانی کی بات نہیں ہے کہ پولیس خود جج کا کام کررہی ہے۔

اسکی بہترین صورت یہ ہوتی ہے کہ پولیس نے اپنی دفاع میں مظاہرین پر گولیاں برسائی ہیں۔

اگر معاملہ ایسا ہوتاو اس کو واضح اور شفاف ہونا چاہئے تھا۔جہاں پر بھروسہ ختم ہوتا ہے‘ وہاں انٹرنٹ خدمات مسود د کردی جاتی ہیں‘ تاکہ نفسیاتی طور پر خوف پیدا کیاجاسکے‘ جو اس دعویداری کی منشاء ہوگی۔

پچھلے ہفتہ ہوئے تشدد کی ایک آزادنہ تحقیقات ضروری ہے تاکہ شفافیت قائم رہے۔ افواہو ں او رشبہات کے بادلوں کو صاف کریں‘ جہاں پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں وہاں پر خاطیوں کی پہچان کریں اور انہیں سزا دیں۔