شہریت ترمیمی قانون اور ہمارا لائحہ عمل

   

محمد نصیرالدین

ہندوستان اپنے جمہوریہ بننے کی یاد منانے جارہا ہے لیکن بدقسمتی سے اس جمہوری ملک کی بڑی آبادی اضطراب و بے چینی میں مبتلا ہے۔ حکمرانوں اور ان کے بھکتوں نے ہر طرف ظلم و زیادتی، تشدد اور انارکی کا ماحول برپا کردیا ہے۔ انسانیت شرمسار ہورہی ہے۔ انصاف کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ جمہوریت سسکیاں لے رہی ہے، جامعات میں جبر و تشدد کا ننگا ناچ ہورہا ہے۔ اقلیتی آبادی خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ امن کے نام لیوا اور صحافی ظالموں کے نشانے پر ہیں۔ دستور کے تقاضوں کو پامال کیا جارہا ہے اور پورے ملک میں دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ ملک کے معروف دانشور، مصلح، سماجی کارکن، ادیب، صحافی حتی کہ سیاست داں بھی ملک کے حالات پر حیران و ششدر ہیں کہ ملک میں یہ کیسا ماحول بنایا جارہا ہے۔ عوام کو کیوں بانٹا جارہا ہے اور آخر جمہوری ہندوستان میں عوامی اُمنگوں، خواہشوں اور مرضی کے خلاف کیسے تانا شاہی کا انداز اختیار کیا جارہا ہے؟ دوسری طرف حسب روایت امت مسلمہ کے رہنما، قائدین، علماء، دانشور، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں مصروف ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے کے مطالبہ کو لے کر مرکزی حکومت پر متحدہ طور پر خاطر خواہ دباؤ بنانے سے قاصر ہیں۔ ملک کی معروف جامعات میں تشدد کو روکنے کے لئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہیں ہے۔ عوام الناس کو ترمیمی بل کے سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نظر نہیں آتی، لیکن یہ بات بے حد خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہے کہ عوام میں اس بل کے خلاف زبردست بیداری پیدا ہوچکی ہے اور عوام اس قانون کے خلاف اپنا غم و غصہ ظاہر کرنے بڑی تعداد میں ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں نکل پڑی ہے لگتا ہے کہ ملت کے قدآور لیڈروں کا قد تیزی سے چھوٹا ہونے لگا ہے کیونکہ نئی نسل ہی انتہائی ڈسپلین اور اعتماد کے ساتھ قیادت کا فریضہ نبھانے میں لگی ہے۔ ملک بھر میں مسلمانوں اور انصاف پسند برادران وطن کے زبردست احتجاج کے بعد کئی ریاستوں نے اس سیاہ قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن افسوس کہ ریاست تلنگانہ میں اس قانون کو لے کر حکومت نے کوئی موقف واضح نہیں کیا ہے اگرچیکہ مبینہ طور پر خفیہ معاملات کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بل کی علامتی مخالفت ضرور کی جبکہ یہ بات طئے ہوچکی تھی کہ بہرصورت بل پاس ہونے والا ہے۔ برسراقتدار جماعت کی واحد حلیف کے شعلہ بیان قائد نے علماء اور مذہبی شخصیات کو لے کر چیف منسٹر کے ساتھ 4 گھنٹے گزارے اور لذیذ ظہرانہ بھی کھایا اور اعلان کیا کہ چیف منسٹر اندرون 2 یوم اس قانون کے متعلق واضح فیصلہ کریں گے لیکن یہ یقین دہانی شیخ چلی کی باتوں کی مانند ہوکر رہ گئی۔ لگتا ہے کہ ظہرانہ کا ذائقہ ابھی زباں پر باقی ہے جس کی وجہ سے نہ ہی قائد اور نہ ہی ان کی پکار پر لبیک کہنے والے علماء و مذہبی شخصیات نے حکومت کی معنی خیز خاموشی پر لب کشائی کی ہے۔ باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ بے نامی دولت پر انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ حکام کے دھاوؤں سے ڈرا کر مرکزی حکومت نے قائد کو بے اثر بنا دیا ہے اور دیگر علماء و قائدین اور مذہبی شخصیات کی زبانوں کو مختلف ذاتی و جماعتی مفادات نے گُنگ کردیا ہے اور وہ اپنے اَسلاف کی جرأت، بے خوفی اور حق گوئی کی اعلیٰ صفات سے محروم ہوچکے ہیں۔ اگرچیکہ عوامی دباؤ کی وجہ سے وہ بل کے خلاف نمائشی احتجاج کرنے پر مجبور ہیں:

منصب و جاہ کے بت ، خواہش و ارماں کے بت
دِل میں بت خانہ ہی بت خانہ بنا رکھا ہے
یہ بات کتنی شرمناک ہے کہ تلنگانہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں بھی سیاست اور مفادات کا چکر عروج پر ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی گندی ذہنیت بھی کارفرما ہے، احتجاجی پروگراموں میں بھی انانیت و نخوت کام کررہی ہے اور اختلاف و انتشار کو ترجیح حاصل ہے۔ عالم اسلام کے عظیم مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 26 اپریل 1947ء کو مدراس میں مسلمانوں کے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے پیش گوئی کی تھی کہ ’’جو اسٹیٹ مسلم اقلیت کے علاقوں میں بن رہا ہے، وہ ہندوؤں کا قومی اسٹیٹ ہوگا۔ قومیت و جمہوریت کے جن نظریات کو مسلمان اور ہندو یکساں تسلیم کرکے اپنی قومی تحریکوں کی اساس بنا چکے ہیں، ان کی بنیاد پر کوئی قومی اسٹیٹ اپنے اندر کسی دوسری ایسی قوم کے وجود کو گوارا نہیں کرتا جو حکمراں قومیت سے الگ اپنی مستقل قومیت کی مدعی ہو اور پھر اس قومیت کے دعوے کے ساتھ اپنے مخصوص قومی مطالبات بھی رکھتی ہو۔ یہ چیز صرف اس وقت تک چل سکتی ہے جب تک مملکت میں عملاً اقتدار ایک بیرونی قوم کا تھا اور ہندو اور مسلمان دونوں اس کے محکوم تھے۔ صرف اسی وقت یہ ممکن تھا کہ اقلیت بھی اکثریت کی طرح اپنے الگ قومیت کا دعویٰ کرے اور کم و بیش اپنے کچھ مستقل حقوق منوالے۔ مگر جب جمہوری اصول پر اہل ملک کی آزاد حکومت بن جائے گی تو ہندوستان ہندو اکثریت کا قومی اسٹیٹ بن کر رہے گا اور اس میں کسی اقلیت کی جداگانہ قومیت اور مخصوص قومی مطالبات کیلئے گنجائش نہ ہوگی۔ قومی اسٹیٹ ایسی کسی قومیت کو تسلیم کرکے اس کے مطالبے کبھی پورے نہیں کیا کرتا بلکہ وہ کوشش کرتا ہے کہ اسے تحلیل کرکے اپنے اندر ہضم کرلے، پھر اگر وہ اتنی سخت جاں نکلتی ہے کہ ہضم نہ ہوسکے تو اسے دبا دینا چاہتا ہے تاکہ جداگانہ قومی وجود اور اس کی بناء پر مستقل قومی مطالبوں کی آواز کو بلند ہونے ہی نہ دیا جائے اور بالآخر اگر وہ دباؤ کے نیچے بھی چیخے ہی چلی جائے تو پھر قومی اسٹیٹ اسے باقاعدہ فنا کرنے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔ یہی کچھ ہندوؤں کے قومی اسٹیٹ میں مسلم اقلیت کو پیش آنے والا ہے۔ مسلم قومیت کے سامنے تین راستے پیش کئے جائیں گے:
(1) یا تو اپنی جدگانہ قومیت کے دعوے اور اس کی بناء پر مستقل حقوق کے مطالبے سے دستبردار ہوکر اسٹیٹ کی قومیت میں جذب ہوجائے۔
(2) اگر وہ اس کیلئے تیار نہ ہو تو اسے ہر قسم کے حقوق سے محروم کرکے شُودروں اور اَچھوتوں کی سی حالت میں رکھا جائے۔
(3) یا اس پر استیصال کا پیہم عمل جاری رکھا جائے یہاں تک کہ قومی اسٹیٹ کے حدود میں اس کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ (تحریک آزادی ہند)
مولانا مودودیؒ کی 73 سال قبل کی گئی پیشن گوئی آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہوچکی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہو؟
سب سے اولین چیز جس کی طرف توجہ ضروری ہے کہ مسلمان ، ناانصافی کے خلاف اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کو مسلمانوں کی جدوجہد نہ بننے دیں بلکہ برادران وطن کو بھی اپنے ساتھ رکھیں تاکہ یہ جدوجہد ہندو اور مسلم کی تفریق کا ذریعہ بننے نہ پائے۔ دوسری چیز جس کی طرح توجہ ہو وہ یہ کہ عوامی احتجاج کو لازما پرامن رکھا جائے اور قانونی طور پر بھی جدوجہد کی جائے اور بطور خاص میڈیا میں بھی حق و انصاف کی آواز بلند کرنے میں کوئی دقیقہ نہ باقی رکھا جائے۔ تیسری طرف یہ بات انتہائی اہم ہے کہ برسراقتدار گروہ کی پارٹی کے قائدین اور ارکان پارلیمان سے بھی خصوصی ملاقاتیں کی جائیں، ان کے ضمیر پر دستک دی جائے اور اس بل کے حسن و قبح سے واقف کرواتے ہوئے ملک کے اتحاد و سالمیت کیلئے آگے آنے کی خواہش کی جائے۔ چوتھی طرف ملت اسلامیہ کو حالات سے مایوس ہونے یا خوف و خطر میں مبتلا ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ان کے ذہن نشین کی جانی چاہئے کہ مسلمان کسی ایک خطہ کا غلام نہیں ہوتا بلکہ وہ اس بات کو مانتا ہے کہ ’’الارض للہ‘‘ اور اس کے نزدیک کسی بھی شہریت کے مقابلہ میں ایمان و عقیدہ زیادہ اہم ہے اور اس کی حفاظت اس کی کامیابی اور کامرانی کا واحد ذریعہ ہے۔ پانچویں چیز جس کی طرف تمام مسلمانوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ مسلمان کو اپنی زندگی اور اس کی رعنائیوں سے اوپر اُٹھ کر سوچنے اور زندگی بسر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں اور خاص کر جس دولت و ثروت سے اسے نوازا ہے۔ وہ اس کا مالک ہرگز نہیں ہے بلکہ امین ہے۔ اس کے لئے کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے کہ اللہ کی عطا کردہ دولت کو محض اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی تکمیل میں خرچ کر ڈالے اور شادی بیاہ یا دیگر ضروری اور غیرشرعی تقریبات میں دولت کو لٹائے بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے دیگر بھائیوں کی تعلیمی مدد، معاشی تعاون اور بیروزگاری دُور کرنے میں اپنی دولت کا ایک خاص حصہ لازماً صرف کرے۔ آخری بات جو ہر مسلمان کو ذہن نشین کرلینی چاہئے، خاص طور پر اس طبقہ کو جو خود پر نازاں رہتا ہے اور اپنی دولت و طاقت پر بسااوقات اِترانے لگتا ہے کہ ظلم و جبر کی آندھی جب چلتی ہے تو وہ ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور جو بھی اس کی زد میں آتا ہے، اسے تباہ و تاراج کردیتی ہے چنانچہ گجرات فسادات میں احسان جعفری کی المناک شہادت سب کیلئے باعث عبرت و نصیحت ہے۔ اس کہ باوجود اگر کوئی اپنی سیاسی بازیگری، دولت و ثروت یا حواریوں کی طاقت کے بل پر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ کسی بھی مخالف آندھی یا طوفان سے بچ جائے گا اور کوئی بھی آفت اسے گزند نہیں پہنچائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اسے تاریخ سے سبق اور عبرت لینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے اور اپنے مفاد پرستانہ اور خودغرضانہ طرز عمل کو ترک کرتے ہوئے للہیت، ایثار و قربانی کے ساتھ اُخوت مسلم کے عظیم کردار کو فوری اپنانا چاہئے، ورنہ وہ وقت دُور نہیں جب ظلم و جبر کی آندھی دیگر کے ساتھ انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور آخرت میں بھی وہ ناکام اور رسواء ہوں گے:
لے کے اُٹھے تو کوئی ذوق سفر عزم سفر
رہگزاروں پہ چراغاں ہی چراغاں ہوگا