شہریت ترمیمی قانون پر حکم التواء سے سپریم کورٹ کا انکار

,

   

۔ 143 درخواستوں کی سماعت، جواب داخل کرنے مرکزی حکومت کو چار ہفتوں کی مہلت
پانچ رکنی وسیع تر بنچ سے رجوع کرنے کا اشارہ، آسام اور تریپورہ کی درخواستوں پر علحدہ غور

نئی دہلی ۔ 22 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون پر حکم التواء سے انکار کردیا اور کہا کہ مرکزی حکومت کی اس پر کوئی بات سنے بغیر وہ حکم التواء جاری نہیں کرے گا۔ عدالت عظمیٰ نے سی اے اے کے خلاف درخواستوں پر جواب داخل کرنے کیلئے مرکز کو چار ہفتوں کی مہلت دی ہے۔ سی اے اے کے خلاف 140 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اس مسئلہ کو پانچ رکنی دستوری بنچ سے رجوع کیا جائے گا۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی زیرقیادت سپریم کورٹ کی بنچ سی اے اے کو چیلنج کرتے ہوئے داخل کی گئی 143 درخواستوں کی سماعت کی۔ عدالت نے اس پر جواب داخل کرنے کیلئے مرکزی حکومت کو چار ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے تمام ہائیکورٹس سے کہا کہ اس کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ تک وہ سی اے اے کے خلاف درخواستوں کی سماعت نہ کرے۔ سپریم کورٹ کی بنچ جسٹس ایس عبدالنظیر اور جسٹس سنجیو کھنہ پر مشتمل تھی۔ عدالت نے آسام اور تریپورہ کی درخواستوں کو علحدہ کرتے ہوئے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کا مسئلہ ان دو ریاستوں کا باقی ملک سے مختلف ہے۔ عدالت کاکہنا ہیکہ ہر ایک کے ذہن میں یہ سب سے اہم مسئلہ ہے اس کیلئے پانچ رکنی بنچ تشکیل دی جائے گی اور مقدمہ کو اس سے رجوع کیا جائے گا۔ ان درخواستوں پر مرکزی حکومت کے بیان کی سماعت کے بعد عارضی حکم التواء چار ہفتوں کے بعد جاری کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کردیا سی اے اے اور این پی آڑ پر عمل آوری پر بھی کوئی روک نہیں لگائی جائے گی۔ آسام میں شہریت ترمیمی قانون کی پہلے تاریخ 24 مارچ 1971ء تھی۔ اس وقت تک آسام میں آنے والوں کو شہریت دی جانی تھی لیکن اس تاریخ میں توسیع کردی گئی ہے جس کے تحت 31 ڈسمبر 2014ء تک آسام میں داخل ہونے والوں کو شہریت ترمیمی قانون کے تحت ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ آسام اور تریپورہ سے متعلق درخواستوں اور اترپردیش سے متعلق مسائل جہاں قواعد وضع کئے بغیر ہی سی اے اے پر عمل آوری کی جارہی ہے ان کی علحدہ طور رپ سماعت کی جائے گی۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بڑی تعداد میں درخواستوں کی سماعت کیلئے چیمبر میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا اور چار ہفتوں کے بعد یومیہ بنیاد پر اس کی سماعت کا تعین کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال مرکزی حکومت کی طرف سے عدالت میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ حکومت کو 143 کے منجملہ صرف 60 درخواستوں کی نقل وصول ہوئی ہے۔ انہوں نے تمام درخواستوں پر جواب داخل کرنے کیلئے وقت طلب کیا ہے۔ سینئر وکیل کپل سبل نے شہریت ترمیمی قانون پر عمل آوری پر روک لگانے اور فی الوقت نیشنل پاپلیشن رجسٹر (این پی آر) پر عمل آوری کو ملتوی کرنے عدالت پر زور دیا۔ بی جے پی کی زیرقیادت مرکز کی این ڈی اے حکومت نئے شہریت ترمیمی قانون کے تحت 31 ڈسمبر 2014ء سے قبل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آئے ہندوؤں، سکھ، بدھسٹ، عیسائی، جین اور پارسی طبقات کے افراد کو ہندوستانی شہریت دینا چاہتی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظوری کے بعد صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے 12 ڈسمبر 2019 ء کو دستخط کرتے ہوئے اس بل کو قانونی شکل دی تھی۔ اس کے بعد شہریت ترمیمی قانون کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف بڑی تعداد میں درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ درخواست گذاروں میں انڈین یونین مسلم لیگ، کانگریس قائد جے رام رمیش، راشٹریہ جنتادل قائد منوج جھا، ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ مہواموئترا، ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی اور دوسرے شامل ہیں۔ مسلم لیگ نے اپنی درخواست میں کہا ہیکہ شہریت ترمیمی قانون، دستور کے بنیادی حق مساوات کی خلاف ورزی ہے اور اس کے ذریعہ غیرقانونی تارکین وطن کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا ارادہ ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ قانون دستور کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے خلاف امتیاز پر مبنی ہے کیونکہ سوائے مسلمانوں کے دیگر تمام کو اس کے فوائد دیئے جارہے ہیں۔