شہریت ترمیم قانون پر احتجاج۔ فرقہ ورانہ فسادات جس کا بیٹا مارا گیا ہے اس امام نے امن کی اپیل کی ہے

,

   

انہوں نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ عام لوگوں کو مشکلات پیدا نہ کیں اور نہ ہی لوگوں کو تکلیف دیں یا خانگی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں جو اتوار کی صبح سوشیل میڈیاپر پھیلائی گئی ہے

کلکتہ۔ مولانا عمادالرشیدی جومغربی بنگال کے اسنسول سے ایک امام ہیں جن کابیٹاکی2018کے مغربی بردھامان شہر میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران موت ہوگئی تھی‘ پھر ایک مرتبہ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ امن قائم رکھیں اور انہوں نے این آر سی کے خلاف جاری احتجاج کے دوران تشدد کو ’‘ غلط اور ناقابل قبول“ قراردیاہے۔

انہوں نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ عام لوگوں کو مشکلات پیدا نہ کیں اور نہ ہی لوگوں کو تکلیف دیں یا خانگی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں جو اتوار کی صبح سوشیل میڈیاپر پھیلائی گئی ہے۔

اسنسول سے بذریعہ فون انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے امام رشیدی نے کہاکہ ”مظاہرین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچائیں‘ کسی کانقصان نہ کریں‘ کسی کوبھی‘ کسی مذہب یا طبقے کو تکلیف نہ دیں اور نہ ہی کوئی سرکاری او رخانگی املاک ہیں اس کو نقصان نہ پہنچائیں۔

جو فیصلہ عوام نے کیا ہے وہ غلط او رناقابل قبول ہے۔

میں لوگوں سے امن اور استحکام کی اپیل کرتاہوں“۔مارچ2018میں اسنسول میں رام نومی کے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تصادم میں مذکورہ امام کے ایک16سالہ بیٹے کی موت ہوگئی تھی‘ اور انہوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ امکانی این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ کی وجہہ سے لاکھوں لوگ مشکلات میں پڑجائیں گے۔

رشیدی نے مزیدکہاکہ ”لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ جو اس قانون پراحتجاج کررہے ہیں۔ہر کسی کو اپنے جمہوری حقوق کے استعمال کا حق حاصل ہے‘ مگر پرامن انداز میں یہ ہونا چاہئے“۔رشیدی نے کہاکہ ”حکومت کو چاہئے وہ لوگوں کی مدد کرے۔

آسام میں کئی پیسے خرچ ہوگئے اور لوگ تحویل میں ہیں۔پھر مذکورہ مرکزی حکومت کہہ رہے ہیں اس کو ختم کردے گی او رقومی سطح پر این آرسی لائے گی۔ کئی لوگوں کے پاس برابر دستاویزات نہیں ہیں۔ وہ کہاں جائیں گے؟۔

ہمیں دوسروں کوشہر یت دینے والے نئے قانون سے کوئی شکایت نہیں ہے‘ مگر مسلمان۔مگر دور س نتائج میں یہ اقدام ایک مخصوص کمیونٹی کے لئے مشکلات کھڑا کرنے والا اقدام ہے۔

اس پر حکومت کوغور کرنا چاہئے“۔سال2018مارچ30کے روز صبت اللہ رشیدی مردہ پائے گئے تھے‘ اور رام نومی جلوس کے دوران ریاست بھر میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے چوتھے متاثر بنے۔

تدفین کے بعد مذکورہ مولانا نے لوگوں سے پرامن انداز میں رہنے کی اپیل کی تھی